back

طلا ق کے بارے میں گفتگو

next

 

میں پہلے یہ تصور کرتا ہوں کہ میں ہی صرف طلاق سے نفرت کرتا ہوں لیکن جب میں نے اپنے والد سے اس بارے میں گفتگو کی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ میں ہی صر ف طلاق سے نفرت نہیں کرتا، بلکہ میرے والد بھی میری طرح طلاق سے نفرت کرتے ہیں اور ہماری طرح بہت سے لو گ ہیں کہ جو طلاق سے کر اہت کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں میرے والد نے مجھے بتا یا :

خدا وند تبارک و تعالیٰ طلاق کو دو ست نہیں رکھتا اور انہوں نے مزید حد یث شر یف کے چند نصوص مجھ سے نقل کئے میرے والد نے مجھے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے بارے میں  بتایا جس میں امام علیہ السلام نے فرمایاہے :

”ما من شئی ابغض الی اللہ عزو جل من الطلاق“

”خدا و ند عالم کے نزدیک طلاق سے زیادہ کو ئی چیز بری نہیں ہے “اور میرے والد نے مجھ سے امام صادق علیہ السلام کی ایک اور روایت بیان کی :۔

”ما من شئی ابغض الی اللہ عزو جل من بیت یخرب فی الاسلام با لفر قۃ ، یعنی الطلا ق“

”اللہ کے نزدیک تفر قہ سب سے زیادہ بری چیز ہے کیو نکہ اس کے ذریعہ اسلام کا ایک گھر تباہ ہو جاتا ہے اور یہ تفر قہ طلاق ہی تو  ہے “ ۔

مجھ سے اس روایت کو بیان کیا کہ حسن بن فضل نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس حد یث شر یف کو نقل کیا ہے :

”تزو جو او لا تطلقو ا، فان الطلا ق یہتز منہ العرش“

”شادی کرو اور طلاق نہ دو ، کیو نکہ طلا ق عر ش کو ہلا دیتی ہے ۔“

حدیث شر یف میں بغض طلاق سے مراد وہ شخص ہے کہ جو کثرت کے ساتھ طلاق دیتا ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں :

”خداوند عالم ہر طلاق دینے والے سے بغض رکھتا ہے ۔“

میں نے اپنے والد سے عر ض کیا کہ میں طلاق سے نفرت رکھتا ہوں لیکن اس کے باو جود میں اس کے کچھ احکام کو جا ننا چا ہتا ہوں ۔میرے والد صا حب نے فرمایا:ہاں ٹھیک ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے احکام طلاق کاآغاز کیا۔طلاق دینے والے کے لئے شر ط ہے کہ وہ بالغ ، عاقل اور با اختیار ہو۔ لہٰذا بچے، مجنون اور وہ شخص کہ جس کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے ان کا طلاق دینا صحیح نہیں ہے مگر اس میں احتیاط کو مد نظر رکھا جائے اور طلاق دینے والے کا مقصد صیغہ طلاق  سے حقیقی جدائی ہو ۔لہٰذا مذاق اور نسیان اور طلاق کے معنی نہ سمجھنے کی صورت میں طلاق صحیح نہیں ہو گی۔

سوال :  طلا ق کا صیغہ کیا ہے ؟

جواب :  طلاق عر بی زبان میں اور مخصوص صیغہ کے ذریعہ واقع ہو تی ہے ، اور اسے جا ری کرنے والا عر بی پر قادر ہو ۔ اور دو عادل مر دوں کی موجودگی میں اسے جاری کرے مثلاً شوہر کہے ”زو جتی فا طمہ طالق“یا اپنی زو جہ کو مخاطب کرتے ہو ئے کہے”انت طالق“یا شوہر کا وکیل کہے ”زوجۃ موکلی فا طمہ طالق“اس طر ح شوہر اور زو جہ کے درمیان طلاق واقع ہو جائے گی۔

سوال :  کیا صیغہ طلاق میں زو جہ کے نام کا ذکر واجب ہے ؟

جواب :  نہیں اس کا نام لینا ضروری نہیں ہے ۔جب کہ وہ معروف و مشخص ، اور معین ہو اور اس کے علاوہ اس کی کوئی اور بیوی نہ ہو تو اس کے نام کا ذکر کرناواجب نہیں ہے۔

 میرے والد صا حب نے فرمایا:۔جب تک عورت حیض و نفاس سے پاک نہ ہو،اس وقت تک اسے طلاق دینا صحیح نہیں ہے ۔مگر یہ کہ وہ مد خو لہ نہ ہو حا ملہ ہو یا بعض حالات میں جب کہ اس کا شوہر غا ئب ہو ۔ اسی طرح اس کی پا کی میں اس کو طلا ق دینا صحیح نہیں ہے کہ جس میں شو ہر نے اس کے ساتھ مجا معت کی ہو بلکہ شو ہر پر واجب ہے کہ وہ انتظار کرے یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے اور وہ حیض سے پا ک ہو جائے پھر وہ جب حیض سے پاک ہو جائے تو اس کے بعد اس کو طلاق دیدے ۔

دو سری بات یہ ہے کہ متعہ میں عورت کو طلاق نہیں دی جائے گی بلکہ جو مدت دو نوں نے معین کی ہے اس کے ختم ہو تے ہی دو نوں میں جدائی ہو جائے گی یا شو ہر باقی مدت بخش دے گو یا مرد اپنی زو جہ سے مثلاً کہے ”و ھبتکِ المدة الباقیہ“با قی مدت میں نے تجھ کو بخش دی ۔

پس ان دو نوں کے در میان جو تعلق تھا وہ ختم ہو جائے گا اور مدت کے بخشنے میں شا ہدوں کا ہو نا معتبر نہیں ہے ۔ اور نہ اس میں حیض و نفاس سے پاک ہو نے کی شرط ہے ۔ 

میرے والد نے یہ کہتے ہو ئے مزید بتایا کہ جب مرد کسی ایسی عورت کو طلاق دیدے کہ جس نے نو سال پورے کر لئے ہوں اور اس کے ساتھ دخول کیا ہو اور ابھی وہ سن یا ئسہ کو نہ پہنچی ہو تو اس عورت پر عد ہ رکھنا واجب ہے اور عدہ کی ابتداء طلاق جاری ہو نے کی تاریخ سے ہو گی نہ کہ جس تا ریخ سے اسے طلاق کا علم ہوا ہے ۔ اور حا ملہ کی طلاق تین طہر ہیں اور جب طہر میں اس کو طلاق ہو ئی ہے تو طہر طلاق حیض کے درمیان کا فاصلہ ہے اوریہ طہر پہلا طہر سمجھا جائے گا چا ہے اس طہر کی مدت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو ۔ 

سوال :  اس کے معنی یہ ہےہیں کہ تیسرے خون کے ظاہر ہو نے پر عدہ کی مدت ختم ہو جائے گی۔

جواب : ہاں ۔تیسرے خون کے ظاہر ہو جا نے کے بعد اس کی عدت ختم ہو جائے گی ۔

سوال :  اور جو حا ملہ ہے اس کی عدت کتنے روز ہے ؟

جواب :  اس کی عدت و ضع حمل تک ہے چا ہے یہ و ضع حمل کامل ہو یا سا قط ہو جائے ۔

سوال :  اگر طلا ق کے بعد و ضع حمل ایک دن میں ہو جائے تو کیا اس ولادت کے سا تھ عدت کی مدت ختم ہو جا ئے گی۔؟

جواب :  ہاں ۔ یہاں تک کہ ولا دت طلاق کے ایک دن بعد نہیں بلکہ ایک گھنٹے کے بعد ہی کیوں نہ ہو لیکن شر ط ہے کہ بچہ اس کے شوہر کا ہو کہ جس نے طلاق دی ہے مثلاً زنا کا نہ ہو۔

سوال :  اور کیا جو عورت متعہ میں تھی اس کی عدت اس کے شوہر کی جدائی کے بعد ہے؟

جواب : اگر وہ بالغہ مد خو لہ ہو ، یائسہ اور حا ملہ نہ ہو تو اس کی عدت (دو حیض ہے )کا مل ہے جس کو حیض آتا ہو اور جس کو کسی مرض یا عذر کی بنا پر حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت پینتالیس (۴۵)روز ہے ۔

میرے والد نے مزید فرمایا کہ مرد کے ہاتھ میں طلاق ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱)با ئن (۲)رجعی 

طلا ق بائن :

طلاق بائن وہ طلا ق ہے کہ جس کے بعد شوہر زو جہ سے رجو ع نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ دو سرا عقد کرے جیسے کو ئی زو جہ کو اس کے دخو ل سے پہلے طلاق دے دے۔

طلا ق رجعی :

طلاق رجعی وہ ہے کہ جس میں شوہر زو جہ کی طرف رجو ع کرنے کا حق رکھتا ہے جب تک کہ وہ مطلقہ عو رت عدت میں ہو بغیر کسی نئے عقد کے اور بغیر کسی نئے مہر کے ۔

طلاق بائن کے اقسام میں ایک طلاق خلع ہے ۔کہ زو جہ کچھ اپنے شوہر کو دے کر اس کو طلاق دینے پر مجبور کرے اور اس پر الزام لگائے کہ وہ زو جیت کے حقوق کی رعایت نہیں کرتا اور اس سلسلے میں حدود خدا کا لحاظ نہیں رکھتا ۔ لیکن خود شو ہر زو جہ کو مجبور نہ کرے ، اور وہ یہ ہے کہ زو جہ کہے :”بذ لت لک مہری علی ان تخلعنی “”میں نے تجھ کو اپنا مہر بخش دیا تا کہ تو مجھے طلاق دے دے “ اس کے بعد شوہر عربی زبان میں صحیح طریقہ سے دو عادل گو اہوں کے سا منے کہے:”زو جتی فا طمہ “”خلعتہا علی ما بذلت“ یا کہے”فلا نہ طالق علی کذا“

پس جب ایسا کہے گا تو طلاق خلع و اقع ہو جائے گی ۔

سوال :  کیا زو جہ کا نام لینا وا جب ہے ؟

جواب :  اگر معین ہو تو نام لینا واجب نہیں ہے ۔

سوال :  کیا حق مہر کے علاوہ دو سرا کو ئی مال اپنے شوہر کو دینا جائز ہے تا کہ وہ اپنی زو جہ کو طلاق خلع دے دے؟

جواب :  ہاں یہ جائز ہے ۔

سوال :  کیا زوجہ اور شوہر ، دو نوں کسی کو اپنی جگہ طلاق خلع میں حق مہر بخشنے میں اپنا و کیل بنا سکتے ہیں ؟

جواب : ہاں دونوں کو یہ حق حاصل ہے ۔

سوال :  کبھی شوہر غائب ہو جا تا ہے اور اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا اور نہ اس کی موت اورنہ حیات کا علم ہو تا ہے (تو اس صورت میں زوجہ کیا کرے)؟

جواب :  زوجہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اس صورت میں حاکم شر ع کی طرف رجو ع کرے پس حا کم شر ع اسے چار سال تک تلاش کرنے کا حکم دے گا۔ اگر اس مدت میں پتہ نہ چلے اور نہ ہی شوہر کا کو ئی مال ہے کہ جس کو زو جہ پر خر چ کیا جا سکے اور نہ اس کے شوہر کا ولی اس کی زو جہ کو اپنے مال سے کچھ دیتا ہے تو حا کم شر ع اس کو طلاق دینے کا حکم دے دے گا ،اگر وہ انکار کرے اور اس پر اجبار ممکن نہ ہو ، اور نہ شو ہر کا کو ئی ولی ہو تو پھر جیسے ہی عورت حا کم شر ع سے استدعا کرے گی تو حاکم شر ع اس کی استد عا پر اس کو طلاق دے گا ۔

سوال :  اگر شو ہر عمر قید میں ہو اور وہ زو جہ کا خر چ دینے پر بھی قادر نہ ہو اور طلاق دینے کو بھی منع کرتا ہو تو کیا حکم ہے ؟

جواب :  زو جہ کو اس صورت میں حا کم شر ع کی طر ف رجو ع کرنا چاہئے ۔ اس حالت میں شکایت کرنا حا کم شر ع سے جائز ہے اور حاکم شر ع اس کے شوہر کو طلاق دینے کا حکم دے گا اگر اس نے منع کیا اور اس کو مجبو ر بھی نہ کیا جا سکے تو پھر عورت کی در خواست پر حا کم شر ع اس کو طلاق دے گا۔

 

index