next

نکاح کے بارے میں گفتگو

back

 

میرے والد نے فرمایا کہ ہمیں اپنے پڑو سی ابو علی کے گھر میں جشن عقد نکاح کے سلسلے میں شرکت کی دعوت ہے اور ضروری ہے کہ ہم آئندہ جمعہ کے دن شام کو تقر یباًپا نچ بجے اپنے محترم پڑوسی کی اس مبارک تقریب میں شر کت کرنے کے لئے آمادہ رہیں۔

سوال :  یہ عقد نکا ح کس کا ہے ؟

جواب :  یہ عقد ان کے فر زند علی کا ہے ۔

سوال :  لیکن ابھی تک علی کے اند ر جوانی کے آثار کہا ں پیدا ہو ئے ان کی عمر ابھی بیس سال کی ہے اور شادی کے قابل نہیں ہو ئے ہیں ؟

جواب:   اس کی عمر بیس سا ل کی ہے اور تم کہتے ہوا بھی ان کی شادی کا وقت نہیں پہنچا ہے وہ تو اب عنفوان شباب میں ہے اور اس کی جسمانی اور عقلی قوتیں بام عروج پر ہیں اور اسی وقت کی جنسی قو تیں بھی ابھر تی ہیں ۔میرے والد صاحب نے مزید فرمایا کہ جب اس جیسی عمر میں فعل اور حر کت کا دباؤ بڑھتا ہے تو اس و قت مناسب ہے کہ اس ابھر تی ہو ئی جوا نی میں شادی کر دی جائے تا کہ نفس فعل حرام میں مبتلا ہو نے سے بچ جائے ۔پس نفس امارہ برائی کی طرف مائل کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں ارشاد ہو تا ہے ۔

”وما ابری نفسی ان النفس لا مارة بالسوء الا مارحم ربی ان ربی غفو ررحیم “

میں اپنے نفس کو بد ی سے بری نہیں کرتا کیو نکہ نفس برائی کی طرف مائل کرنے والا ہے ،مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے ، بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔

اور جب میں نے جنسی دباؤ کے بارے میں سنا تو میں شرمندہ ہو گیا کیو نکہ میرے ہم سن نو جوان جنس کے بارے میں بات کرنے یا سننے سے شرم محسوس کرتے ہیں اس کے باوجود کہ انھیں اس کے بارے میں کچھ سننے اور بات کرنے کا شوق ہوتا ہے۔

جب میرے والد نے شرم و حیا کی علا مات میرے چہرے پر ملا حظہ کیں تو مجھ سے سوال کیا کہ کیا تم شرمندہ ہو ؟ میں نے جواب دیا ہاں کیو نکہ جنسی بات کرنا شرم آور ہے ۔

انہوں نے فرمایا : خو اہشات جنسی کا دباؤ یہ ایک دو سری شرم والی بات ہے کیا ایسا نہیں ہے ۔ میں نے کہا ہاں۔

انہوں نے فرمایا:لیکن ایک با ئیلو جی کی ضرورت ہے کہ اس سے اس بات کی نشا ند ھی ہو تی ہے کہ ہر انسان کمال کی طرف گا مزن ہے۔خواہشات جنسی ،غذا،پا نی اور ان دونوں کے علاوہ ان چیزوں کی ما نند ہے جن کی جسم کو ضرورت ہے ۔پس جس طرح تم بھو ک کے دباؤ میں آکر کھانا کھاؤ گے اور پیاس کے دباؤ میں آکر پا نی پیو گے اسی طرح جنسی دباؤ میں آکر شادی کرو گے ۔

سوال :  لیکن علی کیا جوان ہو گیا ہے ؟

جواب :  کب انسان پر شادی کرنا واجب ہو تا ہے ۔

سوال :  آپ نے جو فرمایا کہ کب شادی کرنا واجب ہو تا ہے تو کیا آپ کی مراد اس سے وجوب شر عی ہے ؟

جواب:   ہاں اس وقت شر عاً واجب ہو تاہے جب انسان اس جنسی دباؤ پر قابو نہ پا سکے اور اپنے نفس کو فعل حرام سے نہ رو ک سکے ۔

علی شجاع ہے اسی بنا پر اس وقت اس کی شادی کا پرو گرام طے کیا گیا ہے اور وہ عالم شباب میں ہے ۔ ہاں و ہ شجا ع ہے ۔ وہ جری ہے اس نے اپنی جنسی حا جت کے دباؤ کو محسو س کیا اور جنسی دباؤاور اضطراب و بیقراری اور تحریک نے علی کے اندر اثر پیدا کیا اور اس کے والد پر یہ را ز کھل گیا۔لہذاان کی تو جہ اس کی شادی کی طرف مبذول ہو ئی تا کہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے قول پر عمل کرکے اس کا نصف دین بچا سکیں۔

”من تزوج فقد احر ز نصف دینہ فلیتق اللہ فی نصف الآخر “

”جس نے شادی کی تو گویا اس نے اپنا آدھا دین محفوظ کرلیا،اب وہ اپنے آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرے “

اس کے فو راً بعد میرے والد نے مزید فرمایا:

شادی کرنا اللہ کے نزدیک ایک محبوب عمل ہے۔

خدا وندے عالم نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے :

”ومن آیا تہ ان خلق لکم من انفسکم ازوا جا لتسکنوا الیہا و جعل بینکم مو دة ورحمۃ“

”اور اس کی نشا نیوں میں سے بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے عو رتیں پیدا کیں تا کہ تم ان سے سکون حا صل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت قراردی ہے ۔

”ھو الذی خلقکم من نفس واحد ة و جعل منہا زو جھا لیسکن الیہا “

”اور خدا وہ ہے کہ جس نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے جوڑا بنایا تا کہ اس سے تسکین حا صل کرو ۔“

امام محمد با قر علیہ السلام نے اپنے جد رسول اللہ  ﷺسے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

اسلام میں شادی کے علاوہ کو ئی ایسی بنیادنہیں جو خدا کے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہو ۔

نبی اکر م  نے فرمایا :

”تزو جوا و زو جوا “تم شادی کرو اور شادی کراؤ۔

امام علی علیہ السلام سے ایک حدیث ہمارے لئے نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”تزو جوا فان التزویج سنۃ رسول اللہ فا نہ کان یقول من کان یحب ان یتبع سنتی فان سنتی التزویج “

”شادی کرو کیو نکہ شادی کرنا رسول اللہ کی سنت ہے گو یا آپ نے فرمایا کہ جو چا ہتا ہے میری سنت کی پیروی کرے تو بیشک میری سنت شادی ہے “

اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

”من اخلاق الا نبیا ء حب النساء“

(اخلاق انبیاء میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عو توں سے محبت کرتے تھے) انھیں حضرت سے مروی ہے کہ:

”رکعتان یصلیہما المتزوج افضل من سبعین رکعۃ یصلیہا اعزب“

”شادی شدہ انسان کی دو رکعت نماز بغیر شادی شدہ انسان کی ستر نماز سے افضل ہے “ اور امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت بیان کی گئی ہے کہ آپ فرمایا:

”ما احب ان لی الد نیا و ما فیہا و انی بت لیلۃ ولیست لی زوجۃ“

”اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب کا سب مجھے مل جائے یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ میں ایک رات اس حال میں بسر کروں کہ جس میں میری کو ئی زوجہ نہ ہو “

اور امام مو سیٰ کا ظم علیہ السلام سے منقول ہے :

”روز قیامت خدا کے عرش کے علاوہ کسی چیز کا سا یہ نہ ہو گا تو اس کے سائے سے تین قسم کے لو گ بہر ہ مند ہوں گے ، ایک وہ کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کی شادی کرائی ہو ، دو سرے وہ کہ جس نے کسی مسلمان کی خد مت کی ہو ، اور تیسرے و ہ کہ جس نے کسی مسلمان کے راز کو پو شیدہ رکھا ہو “

اور بھی بہت سی احادیث ہیں جو شادی کے مستحب ہو نے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور مردو عورت کے کنوارے پن کے مکروہ ہو نے پر دلالت کرتی ہیں۔

سوال :  آپ نے فرمایا عو رت اور مرد کے لئے کیا عورت کے لئے بھی !!

جواب :  ہاں!مرد و عورت دونوں کے لئےکنوارہ پن مکروہ ہے ۔بہت سی احادیث ایسی ہیں جو عورت کو شادی کرنے کی دعو ت دیتی ہیں اور اس پر رغبت دلاتی ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے عورتوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ اپنے نفوس کو شادی کرنے سے نہ بچائیں ،بلکہ اکثر احا دیث اس بات کی طر ف دعوت دیتی ہیں کہ لڑکی کی شادی کرنے میں جلدی کرو اس میں تا خیر نہ کرو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

”من بر کۃ المراة سر عۃ تزو یجہا “

”بر کت والی عورت وہ ہے جس کی جلدی شادی ہو جائے “

سوال :  شادی میں جلدی کرنا اچھا اور بہتر ہے لیکن اباجان شادی کرنا بہت سخت ہے ، ایک جوان کہا ں سے اتنا مال لائے کہ شادی کرے اور شادی کے لئے یہ چا ہئے وہ چا ہئے ؟

جواب:   اسلام شادی میں کم خرچ کرنے اور اس میں کم زحمات اٹھا نے کی دعوت دیتا ہے ۔

سوال :  کیا اسلام کم زحمتوں کی دعوت دیتا ہے ؟

جواب :  ہاں اسلام شادی میں کم زحمات اور تکلفات اٹھا نے کی دعو ت دیتا ہے ۔

سوال :  حق مہر کی مقدار تو اتنی زیادہ ہو تی ہے کہ جس کی بہت سے لو گ شکا یت کرتے ہیں؟

جواب:   کم حق مہر مستحب ہے اور زیادہ لینا مکر وہ ہے۔

سوال :  آپ فرماتے ہیں ؟ کیا زیادہ حق مہر لینا مکروہ ہے ؟

جواب:ہاں زیادہ حق مہر لینا مکروہ ہے اور کم مہر مستحب ہے نبی کریم  سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

”افضل نساء امتی اصبحہن و جھا و اقلہن مہرا“

”میری امت کی عورتوں میں افضل ترین وہ ہیں کہ جن کا حق مہر کم ہو ۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا میرے والد بزرگوار کے سامنے کچھ نحو ستوں کا ذکر ہو ا تو آپ نے فرمایا:

منحو س وہ عورت ہے جس کا حق مہر زیادہ ہو اور رحم با نجھ ہو!

دو سری احا دیث شر یفہ میں بھی اسی طرح وارد ہوا ہے کہ:

”من بر کۃ المراة قلۃ مہر ہا و من شو مہا کثر ة مہر ھا“

”عورت کی بر کت یہ ہے کہ اس کا حق مہر کم ہو اور اس کی نحو ست یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو “

میرے والد بزرگوار نے فرمایا اور وہ تھو ڑی دیر کے لئے خا مو ش ہو گئے کہ جیسے وہ کسی اہم چیز کو یا د کررہے ہوں اور انہوں نے اپنے بیان میں یہ کہتے ہو ئے اضافہ فرمایا کہ:

نبی کریم ﷺ نے جب اپنی بیٹی صد یقہ طاہر ہ فاطمہ زہر اعلیہا السلام کا عقد امیر المو منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ہمراہ بہت تھو ڑے حق مہر اور زرہ حطیمیہ پر کیا حا لا نکہ وہ عالمین کی عو رتوں کی سردار تھی ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے علی کی تزویج زرہ حطیمیہ پر کی۔

حضرت امام محمد با قر علیہ السلام نے صدیقہ طاہر ہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے فرش کی صفت یوں بیان کی ہے کہ فاطمہ کا فر ش بکرے کی کھال کا تھا اسی کو بچھاتے تھی اور اس پر دو نوں سو تے تھے ۔

میں نے اپنے والد سے عر ض کیا کہ ایک نو جوان کے پاس اتنے مادی وسا ئل کہاں ہیں کہ وہ شادی کے بعد اپنے گھر کے نظام کو چلاسکے ؟ کیا یہ مشکل نہیں ہے ؟یا ہم یہ کہیں کہ شادی کے بعد فقر و غربت کا خو ف کھا رہا ہے ؟ یا اس سے خو ف دا من گیر رہتا ہے کہ شادی کے بعد گھر کے اخراجات پورے نہ ہو سکیں گے؟

میرے والد صا حب نے فرمایا :

 خدا وند عالم نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

”وانکحو االا یا می منکم والصا لحین من عبادکم و اما ئکم ان یکو نو افقراء یغنہم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم “

”اور تم میں جو مرد اور عورت بغیر شادی کے ہوں اور تمہاری کنیزیں اور غلام کے نکاح کے قائل ہیں ان کا نکاح کردو ،اگر وہ محتاج ہوں گے تو خداوندعالم ان کو غنی کردے گا ۔اور وہ صاحب و سعت و علم ہے “

امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں اس طرح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

”من تر ک التزویج مخا لفۃ العیلۃ فقد اساء الظن باللہ“

”جو اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے خوف سے شادی نہ کرے بتحقیق اس نے اللہ تعالی ٰ کے بارے میں سو ئے ظن پیدا کیا “

اللہ تعا لیٰ نے ار شاد فرمایا:

”وان یکونو ا فقر اء یغنہم اللہ من فضلہ“

”اگر وہ محتا ج ہو ں گے تو خدا اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا“

میں نے عرض کیا کہ یہ مشکلات معاشرہ میں با اثر و صاحب حیثیت اور بد اند یش لو گوں نے پیدا کی ہیں۔“

خلا صہ یہ کہ لو گ اپنی لڑکیوں کی شادی اسی شخص سے کرتے ہیں کہ جس کے پاس مال و دو لت دیکھتے ہیں اور اسی کو اپنی لڑکی کے لائق سمجھتے ہیں ، لیکن جو لڑکی کے مناسب ہو اس کا اقدام نہیں کرتے ، جس کے نتیجہ میں بہت سی لڑکیاں بغیر شادی کے رہ جا تی ہیں۔

میرے والد نے فرمایا چھوڑو اس بحث کو میں آپ سے لائق اور مناسب شو ہر کے بارے میں اسلام کا نظر یہ اس خط کی رو شنی میں بیان کرتا ہوں جو کسی نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خد مت میں تحریر کیا اور امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:

مروی ہے کہ علی ابن اسباط نے امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس اپنی لڑکیوں کے بارے میں تحر یر کیا کہ وہ کسی کو ان کے مثل نہیں پا تاامام علیہ السلام نے اس کے جواب دیتے ہو ئے تحریر فر مایا:

میں جا نتا ہوں کہ جو کچھ تم نے اپنی لڑکیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ تم کسی کو ان کے مثل نہیں پا تے ہو پس خدا تم پر رحم کرے تم اس بارے میں غورو خو ض کرو ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایاہے کہ اگر تمہارے پاس کو ئی آئے اور تم اس کے اخلاق اور دین کے بارے میں راضی ہو تو تم اس کی شادی کردو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں عظیم فتنہ و فساد بر پا ہو جائے گا۔

میرے والد نے اس طرح مجھے غو رفکر میں ڈالدیا اور اور معا شرہ کے برے رسم و رواج اور ان کی تقلید پر نقد و جر ح کرنے لگا، کہ جو مختلف زبانوں میں برائیوں کو جنم دیتے ہیں اور ہمارے معا شرے میں ان کی جڑیں مضبو ط بن گئی ہیں۔

لہٰذا اسلام شادی میں کم خر چ اور مختصر زحمت اٹھا نے کی ہمیں تر غیب دیتا ہے ، لیکن معاشرے میں اس کی مخالفت ہوتی ہے ۔اسلام ہمیں کم مہر رکھنے کی دعوت دیتا ہے اور معاشرہ کا رسم رواج اس کے مخالف ہے اور اسلام کہتا ہے کہ شادی کرو او رفقر سے نہ ڈرو ۔اور ہم اس کے مخالف ہیں اسلام نے ایک اچھے اور مناسب شوہر کا معیار دین اور اخلاق قرار دیا ہے ،لیکن معاشرہ نے اس کا ایک دوسرا معیار بنا دیا کہ جس میں سب سے پہلے ثروت اور معاشرے میں اس کا جاہ و مقام ہے ۔

اور جب پا نچ بجنے کے قر یب ہو ئے تو میں اور میرے والد ہم دونوں اپنے پڑو سی ابو علی کے گھر جا نے اور جشن عقد میں شر کت کرنے کے لئے متو جہ ہوئے ۔ اب میں آپ سے جشن عقد نکاح کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں ۔

مہمانوں کے استقبال کا ہال مبارک باد دینے والے مد عوین سے بھر ا ہو ا تھا۔ بہتر ین اور چمکتے لباس آنکھو ں میں خیر گی پیدا کررہے تھے ، بیٹھنے والوں کی آنکھوں سے مسر ت و خو شی کے آثار جھلک رہے تھے ، ہال کی رو شنی کی سفید شعا عیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ، ہال بقعہ نور بنا ہوا تھا ۔ اسی دو ران سفید بنفشوی رنگ کے پھولوں کے گلد ستوں سے نکلنے والی عطر آگین خو شبونے پورے ہال کی فضا کو معطر بنا دیا۔

علی دو لہا بن کر ہال میں سب سے آگے آگے اندر کے بند دروازے کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے اور ان کے پہلومیں سید مہیب الطلعہ تھے کہ جن کے چہرے سے نیکی ، خو بی ، اچھائی اور بزرگی و وقار کے آثار نمایاں تھے ۔ اس بڑے ہال کی چیخ و پکار ان کی ہیبت سے خا مو شی میں بد ل گئی ۔ اسی دو ران سید مہیب کی گرج دار آواز نے اس خا مو شی کو تو ڑا اور وہ اس بند دروازے کے پیچھے دلہن سے ہم کلام ہو ئے ۔قرآن مجید کی چند آیات کریمہ اور احا دیث شریفہ پڑھنے کے بعد فرمایا ، فاطمہ کیا تم راضی ہو کہ میں تمہارا و کیل بن کر تمہارا عقد علی بن محمد کے سا تھ پا نچ سو درہم نقد پر پڑھ دوں ؟ اگر تم اس پر راضی ہو تو کہو کہ تم میرے وکیل ہو ۔ دلہن نے آہستہ آواز میں جواب دیا ۔ شرم و حیا کی بنا پر کسی نے اس کی آواز کو (تم میرے وکیل ہو )کہتے ہوئے نہ سنا اور جیسے ہی دلہن نے کہا ”آپ میرے وکیل ہیں “ویسے ہی شر بت کے گلاس کے ٹکرانے کی آواز ایسے سنائی دینے لگی جیسے مسلسل گھنٹی بج رہی ہو۔جس کی بنا پر کچھ ٹکرا کر اور کچھ گرکر پھوٹنے لگے اور لو گوں کے چہرے پر مسکر ا ہٹ ظاہر ہو گئی اور سید بزرگوار علی کی طرف منہ کرکے فرما نے لگے ۔

”زو جتک مو کلتی فا طمۃ بنت احمد علی مہر قدرہ خمسمائۃ ،درھم نقدا“

”میں اپنی مو کلہ فا طمہ بنت احمد کا عقد پانسودرہم نقد حق مہر کے عوض سے کیا ہے ۔ پس دو لہا نے بلا فا صلہ اس کا جواب دیا۔

”قبلت  التزویج“ میں نے اس عقد کو قبول کیا۔   

سوال :  اے ابا جان یہ اتنا کم حق مہر کیوں ہے ؟

جواب:   یہ حق مہر سنت ہے اور جو نبی  کی امت کی مو من عو رتیں ہو تی ہیں ان کاحق مہر ہی سنت نبوی کے مطابق ۵۰۰ درہم چا ندی کے برابر ہو تا ہے اور یہ بہت معمو لی ہے جیسا کہ تم کو معلوم ہے ۔  

سوال :  کیا فا طمہ دلہن کو حق ہے کہ وہ اپنا عقد خود بغیر عقد خواں کے پڑھ سکے؟

جواب :  ہاں شو ہر و زو جہ دو نوں کو حق ہے کہ بغیر کسی وا سطے کے وہ اپنا عقد خود پڑھ سکتے ہیں اور دو نوں میں سے ہر ایک کو یا دونوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو اپنی نیابت میں وکیل بنائیں تا کہ وہ عقد جاری کرے اور ایجاب و قبول کی مطابقت کو تر جیح دے۔  

سوال :  کیسے (یہ تر جیح دے)؟

جواب :  مثلاً جب زوجہ کہے ”زو جتک نفسی “تو اس کے بعد فو راً شو ہر کہے” قبلت التزو یج “اور ” قبلت النکاح“نہ کہے۔ یہ اس وقت ہے جب عقد دائمی ہو ۔ 

سوال :  کیا عقد دائمی غیر دائمی بھی ہو تا ہے ؟   

جواب :  ہاں عقد غیر دائمی بھی ہو تا ہے کہ جس میں مدت اور حق مہر دو نوں معین ہوتے ہیں ۔ مثلاً ایک دن ، ایک مہینہ ، ایک سال یا اسی طرح اور دن بھی معین کرسکتے ہیں ۔ اس حد تک معین کرسکتے ہیں کہ عادۃً عام طور پر ان میں کسی کی عمر سے مدت زیادہ نہ ہو اور مرد و عورت دو نوں کو اسی طرح مکمل اختیار ہے کہ جس طرح عقد دائمی میں ہے کہ وہ دو نوں اپنا عقد خود پڑھ سکتے ہیں یا کسی کو عقد جاری کرنے پر نائب بھی بنا سکتے ہیں ۔

پس اگر ممکن ہو دو نوں اپنا عقد خود پڑھیں تو پہلے عورت مرد سے کہے مثلاً

”زو جتک نفسی مدة سنة بمأة دینا“ مرد فوراً کہے”قبلت التزویج“تو عقد صحیح ہے

 سوال : اور جب یہ عقد تمام ہو جائے تو کیا حکم ہے ؟

جواب:   اس کے تمام ہو نے کے بعد عورت بیوی بن جا تی ہے اور اپنے شوہر پر حلال ہو جا تی ہے ،اتنی مدت تک کہ جتنی مدت کا ذکر عقد میں ہوا ہے، اس کے علاوہ دو نوں کے درمیان میراث تقسیم نہ ہو گی ، شو ہر پر اس کا نفقہ واجب نہیں ہوگا اور نہ اس کا رات گزار نا اس کے پاس واجب ہو گا ،پس جب مدت تمام ہو جائے گی تو وہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی جب کہ عقد دائمی میں عورت تا حیات اپنے شوہر پر حلال رہتی ہے اگر اس کو طلاق نہ دے ، عقد کے لئے کچھ شرائط ہیں۔ 

 سوال : وہ کیا ہیں؟

جواب:   والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں۔

(۱)       عقد میں ایجاب اور قبول دو نوں الفاظ کی صورت میں ہوں ،صرف زو جین کا شادی پر راضی اور متفق ہو نا کا فی نہیں ہے چا ہے عقد دائمی ہو یا غیر دائمی اسی طرح تحریر لکھ دینا بھی کا فی نہیں ہے ۔اور صیغہ عقد کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔

(۲)       صیغہ کے اجراء میں قصد انشاء کا ہو نا ضروری ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مرد و عورت یا ان کے و کیل نکاح کا قصد کریں ۔اس طرح زوجہ کہے ”زو جتک نفسی“اور قصدکرے کہ وہ اس کی زو جیت کو قبول کررہی ہے اسی طرح دونوں کے وکیل قصد کریں۔

(۳)       عورت و مرد حقیقت میں رضا مند ہو ں اور اس میں اہم امر یہ ہے کہ مرد اور عورت کی شادی پر قلبی رضا یت ہو۔

 سوال : کبھی عورت راضی ہو تی ہے لیکن حیاء اور شرم کی بنا پر وہ بظاہر راضی نہیں ہو تی ؟

جواب     جب کہ اس کی واقعی رضا یت ضروری ہے تو کا فی ہے اور اس کا ظاہر ی رضایت نہ دینا ضروری نہیں ہے ۔

(۴)       شو ہر اور زوجہ کا معین ہو نا اس طرح ضروری ہے کہ وہ دو نوں نام یا صفت یا اشارے کے ذریعے معلوم اور مشخص ہوں یااگر کوئی مردیہ کہے ”زو جتک احدی بناتی “یعنی میں نے اپنی لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ہمراہ تیرا عقد کیا ہے اور لڑکی کو معین نہ کرے تو یہ عقد صحیح نہیں ہے ۔

(۵)       حتی الا مکان عقد عربی میں پڑھے ۔

سوال :  اور اگر عر بی میں ممکن نہ ہو ؟     

جواب:   دو سری زبانوں میں عقد جاری کر سکتا ہے اور جہا ں تک ممکن ہو ا یسے الفاظ استعمال کرے جو عر بی الفاظ سے ملتے جلتے ہوں ورنہ کسی ایسے شخص کو و کیل بنائیں کہ جو عربی زبان میں صیغہ جاری کر سکے۔

(۶)       عقد پڑھنے والا با لغ و عا قل ہو۔

میرے والد نے فرمایا!جب یہ تمام شرائط پوری ہو جائیں تو اس وقت عقد صحیح ہو جا تا ہے اور عقد کے بعد زو جہ شو ہر پر مبا شرت کے لئے حلال ہو جا تی ہے۔

 سوال : کیا رخصتی سے پہلے بھی مباشرت حلال ہے ؟

جواب:   ہاں !عقد کے ذریعہ زو جہ شوہر پر حلال ہو تی ہے ۔ لیکن اس سے پہلے تمہارے لئے جا ننا ضروری ہے کہ با لغ رشید ہ اور با کر ہ عو رت کا عقد اس کے باپ یا دادا کی اجازت کے سا تھ صحیح ہے (اگر چہ وہ اپنی زند گی میں مستقل ہی کیوں نہ ہو)

 سوال : جو با کر ہ نہیں ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب:   اس کو حق ہے کہ وہ اپنا عقد خو د کرے وہ اپنی زند گی میں مستقل طور پر دخل رکھتی ہے ۔

سوال :  اگر کسی مرد نے کسی عورت سے اس بنا پر عقد کیا کہ وہ باکرہ ہے لیکن شادی کے بعد معلوم ہوا کہ وہ با کرہ نہیں ہے ؟

جواب     تو وہ مرد عقد فسخ کرسکتا ہے ۔

سوال :  اگر وہ عقد فسخ نہ کرے ،تو کیا کیا جائے گا؟

جواب:   ایسی صورت میں اس کا حق مہر اتنا کم کردیا جائے گا کہ جتنا باکر ہ اور غیر باکرہ میں نسبت کم ہوتی ہے ۔

 سوال : کیا مرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس عورت سے چا ہے عقد کرے ؟

جواب:   ہاں جو عو رتیں اس پر حرام ہیں ان کے علاوہ اسے یہ حق ہے کہ وہ جس عورت سے چا ہےعقد کرے ۔جن عورتوں سے عقد حرام ہے وہ مند جہ ذیل ہیں:

(۱)       اس کی ماں ۔ دادی اور نا نی ۔

(۲)       بیٹی اور اس کے بیٹے کی بیٹیاں ۔

(۳)       اس کی بہن اور بہن کی بیٹیاں اور آگے ان کی بیٹیاں۔

(۴)       اپنے بھائی کی بیٹیاں اور آگے ان کی بیٹیاں۔

(۵)       اس کی پھو پھیاں اور خالا ئیں ۔

(۶)       اپنی بیوی کی ماں (ساس ) اور بیوی کی دادی ،نا نی اگر چہ اس نے اپنی زو جہ سے ہم بستری بھی نہ کی ہو تو بھی یہ عو رتیں حرام ہو جا تی ہیں۔

(۷)       جس عورت سے ہم بستری کی ہو تو اس کی لڑکی ۔(دوسرے شوہر سے)

(۸)       اپنے باپ کی زو جہ اور اس کی دادی ،نا نی۔

(۹)       اپنے لڑکے کی بیوی اور اس کے بچوں کے بچے

(۱۰)      اپنی زو جہ کی بہن جب تک اس کی بہن اس کے عقد میں ہے کیو نکہ دو نوں بہنوں کا سا تھ جمع کرنا جائز نہیں ہے ۔

سوال :  اگر کسی کی بیوی مر جائے تو کیا وہ بیوی کی بہن کے سا تھ عقد کر سکتا ہے ؟

 جواب:  ہاں۔ اس کو اس کا حق ہے ۔دو دھ پلا نے والی عورت اور اس کی لڑکیاں چا ہے اس سے پیدا ہو ئی ہوں یا اس نے ان کو دو دھ پلایا ہو پس جس طرح عو رتیں نسبت کے ذر یعے حرام ہو تی ہیں اسی طرح رضاعت (دو دھ پلائی)کے ذریعہ حرام ہو تی ہیں۔

اور دودھ پینے والے بچے کے باپ کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان لڑ کیوں سے شادی کرے جو اس عورت سے پیدا ہو ئی ہیں اور نہ اس مرد کی لڑکیوں سے شادی کر سکتا ہے کہ جس کا اس کے بچے نے دو دھ پیا ہے اور نہ اس کی نسبتی لڑکیوں سے اور نہ رضاعی ”دودھ پینے والی لڑکیوں سے “البتہ یہ جا ننا ضروری ہے کہ ہر دودھ پلانا حر مت پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں ۔ان شرائط کے سا تھ اگر دو دھ پلایا جائے تو وہ اثرانداز ہو تا ہے اور وہ شر طیں یہ ہیں:

الف       دو دھ کو پستان سے براہ راست پلایا جائے ۔پس اگر عورت کا دودھ مصنو عی چیزوں کے ذر یعے پلایا جائے تو اس کا کو ئی اثر نہیں ہو گا ۔

ب         بچہ کی عمر دو سال سے زیادہ نہ ہو اگر دو سال کے بعد دود ھ پئے تو اس کا کو ئی اثر نہیں ہو گا۔

ج          دودھ اس حد تک پئے کہ ”بچہ کی ہڈی اس سے مضبو ط اور اس کے بدن میں گو شت پیدا ہو جائے اور اگر شک ہو جائے کہ دودھ نے اپنا یہ اثر پیدا کیا یا نہیں ۔ تو ایسی صورت میں ایک رات دن یا پندرہ مرتبہ دودھ پلانا کافی ہے ۔

لیکن اگر ان دو صورتوں یعنی زمانی اور کمی پندرہ مرتبہ میں گو شت کے پیدا ہو نے اور ہڈی کے مضبو ط ہو نے میں دو دھ کا اثر نہ ہو نے کا یقین ہو تو ایسی صورت میں احتیاط کی جائے اور اس زمانی صورت یعنی۔ رات اور دن میں بچہ جس عورت کا دودھ پی رہا ہووہی اس کی اس مدت میں غذا ہو اس اعتبار سے کہ جب بچہ کو دودھ کی ضرورت ہو تو وہ دودھ پلائے اگر اس مدت میں دودھ نہیں دیا یا دوسری غذا کھلائی یا کسی اور عورت نے اس کودودھ پلا دیا تو پھر یہ دودھ کا پلانا اثر نہیں کرے گا اور اس دودھ پلانے میں یہ بات معتبر ہے کہ جب بچہ پہلی دفعہ دودھ پئے تو خو ب بھو کا ہو تا کہ وہ اچھی طرح دودھ پئے اور آخر تک دودھ خوب سیر ہو کر پئے اور کمیت کی صورت میں یعنی پندر ہ بار دودھ پلائی میں معتبر ہے کہ یہ دودھ پلائی پندر ہ بار پے در پے ہو ،اس طرح کہ اس دودھ پلانے کے دوران میں کوئی دوسری عورت بچہ کو دودھ نہ پلائے اور جب بچہ بھو کا ہو تو خوب سیر ہو کر دودھ پئے اور بھی رضا عت (دودھ پلائی )کے مخصوص احکام ہیں کہ جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مو جود ہے اگر چا ہو تو ان کتابوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہو۔

 سوال : اگر کوئی مرد شر یعت مقد سہ کے مقرر قانون کے مطابق شادی کرے تو؟

جواب:   اس کی زوجہ اس پر حلال ہے جیسا کہ میں نے تم سے پہلے بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ اس عورت پرواجب ہے جب اس شوہر چا ہے اس کو اپنے نفس پر اختیار دیدے اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی عذر شر عی کے بغیر اپنے شوہر کو مباشرت سے منع کرے ۔اس طرح دائمی زوجہ پر شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا حرام ہے اور دوسری طرف شوہر پر دائمی زو جہ کے لئے غذا ،لباس ،گھر اور اس کی شان کے مطابق زند گی کی دوسری ضروریات کو فراہم کرنا واجب ہے ۔ اسی طرح شوہر پر ہر چار مہینہ میں ایک بار اپنی زو جہ سے مباشرت لازمی ہے ۔ البتہ زو جہ کی رضا و رغبت سے تر ک کر سکتا ہے یا شوہر کے لئے عذر شر عی پیش آجائے جیسے ضرر اور حرج ۔

 سوال : اگر شوہر زو جہ کا نان و نفقہ ادا نہ کرے جس کی وہ مستحق ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب     زوجہ کا نفقہ شوہر کے ذمہ قرض رہے گا اگر شوہر نفقہ دینے سے منع کرے اور زو جہ اس کا مطالبہ بھی کرتی ہو تو پھر اس کے لئے جائز ہے کہ وہ شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اپنا حق و صول کرے۔

 اس سلسلہ میں گفتگو ختم ہو تی ہے اب میں بعض دو سرے احکام تم سے الگ الگ صورتوں میں بیان کرتا ہوں!

(۱)       کسی مرد کا عورت کی طرف جنسی لذت حاصل کرنے کے لئے دیکھنا یا چھو نا حرام ہے ، کسی چھوٹی بچی کی طرف بھی اس طرح دیکھنا اور اسے چھونا حرام ہے ، یہاں تک کہ چھو ٹے بچے کے ساتھ بھی ایسا کرنا حرام ہے ۔ صرف میاں بیوی اس سے مستثنیٰ ہیں۔اور اسی طرح مرد کا مرد سے حتی کہ کسی چھوٹی بچی سے جنسی لذت حاصل کرنا حرام ہے ۔

(۲)       کسی کی شرمگاہ پر نگاہ کرناحرام ہے چا ہے مرد ہو یا عورت اور چا ہے نگاہ کرنے والا بچہ ممیز ہو، سوائے شوہر اور بیوی کے ۔

(۳)       کسی مرد کا نا محرم عورت کے بدن پر اور اس کے بالوں پر نظر کرنا حرام ہے سوائے چہرہ اور دو نوں ہاتھوں اور پاؤں کے ان اعضا ء پر اس کا دیکھنا بغیر جنسی لذت کے جائز ہے ۔اسی طرح نا محرم مرد کے بدن پر کسی عورت کا نگاہ کرنا حرام ہے سوائے اس حصہ کے جس کا عام طور پر چھپانا لازم نہیں ہے۔  جیسے سر ، دونوں ہاتھ ،اور پاؤں اور ان کی طرف عورت کا نگاہ کرنا بغیر جنسی لذت کے جائز ہے۔

(۴)       مرد کا مردوں کی طرف بغیر جنسی لذت کے نگاہ کرنا جائز ہے اور عورت کا عورتوں کی طرف بغیر جنسی لذت کے نگاہ کر نا جائز ہے ۔اسی طرح مرد کا اپنی محرم عورتوں کی طرف بغیر جنسی لذت کے نگاہ کرنا جائز ہے اور عورت کا اپنے محرم مرد وں کی طرف بغیر جنسی لذت کے نگاہ کرنا جائز ہے ۔ مذ کورہ تمام جگہوں میں شرمگاہ مستثنیٰ ہے یعنی کسی کی بھی شرم گاہ پر نگاہ کرنا جائز نہیں ہے ۔

اور اسی بنا پر مرد کے لئے بغیر جنسی لذت کے اپنی والدہ ، بہن ، پھوپھی ،خالہ ، بھائی کی لڑکی اور اپنی دادی ، نا نی کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے۔

سوال:   کیا اپنے بھائی بھائی کی بیوی ، پھوپھی کی لڑکی ، خا لہ کی لڑکی اور چچا کی لڑکی کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب:   نہیں ، ان کی طرف نگاہ کرنا جائز نہیں ہے کیو نکہ یہ عورتیں اس کی نا محرم ہیں۔

(۵)       عورت پر اپنے بدن اور بالوں کا چھپانا ہر اس نا محرم مرد سے واجب ہے کہ جس کا اس کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے بلکہ عورت اس ممیز بچہ سے بھی اپنے بالوں اور جسم کو چھپائے کہ جس کی شہوت ابھر نے کا امکان ہو اور اس حکم سے چہرہ ، دونوں ہاتھ اور پیر مستثنیٰ ہیں۔

پس عورت نا محرم مردوں کے سا منے ان اعضا ء کو ظاہر کرے اگر حرام میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور ان کا ظا ہر کرنا نا محرم کی حرام نظر پڑنے کا باعث نہ ہو ورنہ ان دونوں صورتوں میں ان اعضاء کا ظاہر کر نا بھی حرام ہے ۔

(۶)       مرد کا فر عورتوں کی طرف بغیر جنسی لذت کے نگاہ کر سکتا ہے اور اسی طرح ان عورتوں کی طرف بھی دیکھ سکتا ہے جو اپنے جسم اور بالوں کو نا محرم لو گوں سے نہیں چھپا تیں جب کہ ان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ رو کا جائے تو ان پر اس کا کو ئی اثر نہ ہو ۔

(۷)       جب مر د کسی عورت سے شادی کرنا چا ہے اور اس کو اپنا شریک حیات بنا نا چا ہے تو اس مرد کو اس عورت کے محاسن مثلاً چہرہ ، بال ،گردن ، ہاتھ اور پنڈلیاں اور دو سری پو شیدہ چیزیں دیکھنا شہوت کے بغیر جائز ہے ۔

سوال :  کیا مرد عقد پڑھنے سے پہلے عورت کی طر ف دیکھ سکتا ہے ؟ اجراء عقد سے پہلے بھی ؟

جواب :  ہاں عقد جاری کرنے سے پہلے مرداس کی طرف نظر کر سکتا ہے اور اس کے سا تھ بات چیت کر سکتا ہے ۔ بلکہ پہلے وہ اس کو اپنے سامنے بلاکر (چلا پھرا کر )خوب دیکھ لے تا کہ اس کی اچھائی و برائی معلوم ہو جائے اس کے بعد اس سے شادی طے کرے ۔

سوال :  کیا کسی عورت کے جسم کو ڈاکٹر کا دیکھنا اور چھو نا جائز ہے ؟

جواب:   اگر عورت کے لئے ڈاکٹر سے علاج کرنا لیڈی ڈاکٹر سے زیادہ آسان ہو تو ورنہ لیڈی ڈاکٹر سے علا ج کرائے اور ڈاکٹر سے علا ج کرانا جائز نہیں ہے ۔

 سوال : کیا کو ئی مسلمان مرد کسی یہودی یا عیسائی عورت سے عقد موقتی (متعہ )کر سکتا ہے ؟ وہ عورت نہ تو مسلمہ ہے اور نہ مو منہ اور وہ عقد مو قتی (متعہ )کے جواز اور اس کی حلیت کا عقدہ بھی نہیں رکھتی ؟       

جواب :  اس کے باو جود اس سے متعہ کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اگر مسلمان مرد عقد مو قت (متعہ ) کے لئے مال بھی دے تو بھی جائز ہے ۔

(۸)       ایک مرد کے لئے چا رعورتوں سے زیادہ عقد دائمی کرنا جائز نہیں ہے اور اس کو طلاق دینے کا حق ہے کہ اپنی عورتوں میں سے جس کو چا ہے طلاق دیدے ۔

سوال :  کیا اس منا سبت سے آپ طلا ق کے بارے میں مجھ سے کچھ بیان نہیں فرمائیں گے؟

جواب:   انشا ء اللہ تعالیٰ بعد والی گفتگو میں اس کے بارے میں بیان کروں گا اب ہمارا وقت ختم ہو گیا میں نے عر ض کیا ۔ بہت بہتر پس آنے والی فصل میں ہماری گفتگو طلاق کے سلسلہ میں ہو گی ۔

 

index