نذر و عہد اور قسم کے بارے میں گفتگو

back

 

نذروعہدو قسم پر گفتگو

میں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ رہاتھا تو میں نے راستہ میں ماں اور بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو کو اس طرح سنا:

ماں: میں نے اللہ تعالی سے نذر کی تھی کہ جب تمہارا چھوٹا بھا ئی اپنی بیماری سے صحت یاب ہوجائیگا تو میں ایک بکرا راہ خدا میں ذبح کروں گی اور الحمد للہ اب وہ شفا پا گیا ہے اور مجھ پر نذر کا ادا کرنا واجب ہو گیا ہے ۔

بیٹا ! اے مادر گرامی ! کیا میں آپ کو ہمیشہ یہ نہیں کہتا ہوں کہ آپ میرے چھوٹے بھائی کو مجھ سے زیادہ چا ہتی ہیں۔

ماں ! ایسی کو ئی بات نہیں ،کیا تمہارے بھائی کا مرض خطر ناک نہ تھا ، اس کی قوت سلب نہیں ہو گئی تھی ؟ کیا اس کی سننے اور دیکھنے کی قوت واپس نہیں پلٹی؟ کیا ڈا کٹر نے نہ کہا تھا کہ اگر عنایت خدا وندی شامل حال نہ ہو ئی تو اس کو شفا نہ ملتی کیا ایسا نہیں ہوا ؟ کیا تم اس کی حالت بھو ل گئے ہو ، کیا واجب نہیں ہے کہ میں اس کی شفا پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں اور اس کی نعمت پر شکر ادا کرتے ہو ئے اس کی راہ میں قربانی کروں ؟!؟

اور اس وقت تو میں نے تمہارے بھائی کے لئے خطرناک مر ض سے شفا پا نے کی امید میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نذر کی تھی ایسا نہیں ہے کہ میں اس کو تجھ سے زیادہ چا ہتی ہوں ، کیا ہم نے تمہاری ولادت کے ساتویں دن بعد تمہاری طرف سے ایک مو ٹے بکرے کا عقیقہ نہیں کیا؟ ایک مو ٹا تازہ بکرا۔۔۔۔کیا ہم نے تمہاری طرف سے قربانی نہ کی تھی ؟ عقیقہ قر بانی ۔۔۔؟

سوال :  عقیقہ کیا ہے ؟ قربانی کیا ہے ؟

جواب :  میرے والد صا حب نے فرمایا کہ اے میرے فر زند ! ولادت کے سا تویں روز مو لو د کی طرف سے چا ہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی بکرا یا گائے ذبح کی جاتی ہے ۔

امام جعفر صا دق علیہ السلام اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں :

”یسمی الصبی فی الیوم السا بع ویعق عنہ و یحلق راسہ و یتصد ق بزنۃالشعر فضۃ و تر سل الر جل و الفخذ للقا بلۃ التی عاونت الا م فی وضع الحمل و یطعم الناس با لباقی منہا و یتصد ق بہ“

”ولا دت کے سا تویں روز بچے کا نام رکھنا چا ہئے اور اس کا عقیقہ کرنا چا ہئے اور اس کے سر کے بالوں کو اتر وانا چا ہئے اور ان کے وزن کے برابر صد قہ دینا چا ہئے اور جا نور کا پیر اور اس کی ران دایہ کو دینا چا ہئے کہ جس نے ماں کی وضع حمل میں مدد کی ہے ،اور اس کا با قی گو شت لو گوں کو کھلاؤ اور اس کا صد قہ دو “اور باپ اور اس کے عیال خصو صاً بچہ کی ماں پر اپنے بچے کے عقیقہ کا گو شت کھا نا مکر وہ ہے ۔

عقیقہ سنت مو کدہ ہے ،ہر اس شخص پر جو اس کی قدرت رکھتا ہو۔امام محمد با قر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی و لادت کے دن ان کے کان میں اذان کہی اور سا تویں دن ان کا عقیقہ کیا ۔ اور وہ شخص کہ جس کے باپ نے اس کا عقیقہ نہیں کیا تو اس کے لئے جا ئزہے کہ وہ بڑا ہو نے کے بعد اپنا عقیقہ خود کرے ۔

عمر بن یزید نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ میں نہیں جا نتا کہ میرے والد نے میرا عقیقہ کیا ہے یا نہیں ؟

حضرت نے انھیں عقیقہ کرنے کا حکم دیاتو انھوں نے اپنا عقیقہ خود کیا، حالانکہ وہ بو ڑھے ہو چکے تھے ۔

سوال :  یہ تو آپ نے عقیقہ کے متعلق بیان کیا آپ مہر بانی کرکے قر بانی کے بارے میں بھی ارشاد فر مائیں؟

جواب :            میرے والد نے فرمایا کہ قربانی یہ ہے کہ انسان عید کے دن بکرے کو ذبح کر تا ہے اور قربانی سنت مو کدہ ہے اور زندہ یا مردہ دو نوں کی طرف سے یکساں طور پر قر بانی کرنا جا ئز ہے اور یہ قر بانی بچے کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے ، جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی عورتوں کی طرف سے قر بانی کی اور اپنے اہل بیت میں سے جس کی طرف سے قر بانی نہیں کی گئی تھی ان کی طرف سے قر بانی ادا کی ، اور اپنی امت میں سے جس نے قربانی نہیں کی اس کی طرف سے قر بانی ادا کی ، اسی طرح ہر سال امیر المو منین علیہ السلام نبی اکر م  کی طر ف سے قر بانی کیا کرتے تھے ۔

سوال :  کیا اس ماں پر اپنی نذر کو پورا کرنا وا جب ہے یا وہ عقیقہ اور قر بانی کی طرح وا جب نہیں ہے بلکہ سنت مو کدہ ہے؟

جواب :  میں تمہیں پہلے نذر کے متعلق بتا تا ہوں کہ نذر کیا ہے ۔

نذر :

نذر یہ ہے کہ تم کسی معین چیز کے انجام دینے یا اس کے تر ک کرنے کو اللہ کے لئے اپنے اوپر لازم کر لو اور وہ چیز کو ئی بھی ہو ۔لیکن ہمیشہ نذر کا ادا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ شر ائط ہیںاگر وہ پائے جائیں تو پھر نذر کا پور ا کرنا واجب ہے ۔

سوال :  وہ کون سی شرائط ہیں جو اگر پائے جائیں تو پھر نذر کا پور ا کرنا وا جب ہے ؟

جواب :  وہ شر ائط در ج ذیل ہیں۔

(۱)       نذر کا صیغہ للہ کے قول پر مشتمل ہو (یعنی نذر کے صیغہ میں للہ کہنا ضروری ہے ) یا اللہ کے وہ مخصوص اسماء جو اس کے مشابہ ہیں ان پر مشتمل ہو ، اگر نذر کرنے والا یہ صیغہ کہے (للہ علی کذا )تو اس کی نذر منعقد ہو جائے گی مثلاً (اس جملہ کا مطلب )گو یا یہ ہوا :

(للہ علی ان اذبح خرو فاً و اتصد ق بلحمہ علی الفقراء ان شفی ولدی )

”پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے لئے مجھ پر لا زم ہے کہ ایسا کروں ۔دو سرے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی طرف سے مجھ پر لازم ہے کہ اگر میرے بچے کو شفا مل گئی تو میں ایک بکر ا ذبح کرکے اس کا گو شت فقراپر تقسیم کروں گا۔“یا یہ کہا جائے ”للہ علی ان ادع واتر ک التعر ض لجاری بسو ء“خدا کی طرف سے مجھ پر لازم ہے کہ میں پڑو سی کے ساتھ برا سلوک نہ کروں “چا ہے اس نذر کے صیغہ کو عربی میں یا کسی دوسری زبان میں ادا کرے برابر ہے ۔

سوال :  اور اگر نذر کرنے والا”للہ علی“نہ کہے یا ”للر حمن علی“نہ کہے اور نہ اس کے مشابہ کہ کو ئی لفظ استعمال کرے جیسا کہ اکثر لو گ آج کل نذر میں کرتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :  تو اس صورت میںاس پر نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہے ۔

(۲)       جس چیز کی نذر کی گئی ہے اگر وہ عمل کے اعتبار سے شر عارجحان رکھتی ہو ۔ 

سوال :  جس چیز کی نذر کی گئی ہے اگر وہ شر عا رجحان نہ رکھتی ہو بلکہ مکروہ یا نقصان دہ یا مبا ح ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :  پہلی دو چیزوں (مکروہ اور نقصان دہ)میں نذر صحیح نہیں ہے ، لیکن مباح میں اگر نذر شرعاً  رجحان رکھتی ہو مثال کے طور پر اگر نذر کرے کہ میں پانی پیوں گا اور اس کا مقصد عبادت کرنے کی خاطر قوت حاصل کرنا ہو تو نذر منعقد ہو گی ورنہ نہیں ۔

(۳)       نذر کرنے والا با لغ ،عاقل اور قصد و اختیار کے سا تھ نذر کرے،جس چیز کی نذر کی ہے اس میں وہ ممنو ع التصر ف نہ ہو ۔

(۴)       جس چیز کی نذر کرے اس پر قد رت یا استطا عت رکھتا ہو۔

سوال :  اور اگر انسان جس چیز پر قادر یا مستطیع نہ ہو اس کی نذر کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :  اس کی نذر صحیح نہیں ہے ۔

سوال :  اور جب انسان مذکو رہ شرائط کے مطا بق نذر کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب :  تو اس نذر کو پورا کرنا اس پر وا جب ہے کہ جس کو اس نے اپنے اوپر لازم کیا ہے چا ہے وہ نذر کسی کام کو اللہ کے لئے انجام دینے یا تر ک کرنے پر مشتمل ہو اس کا وقت معین ہو یا نہ ہو وہ چیز چا ہے نماز ہو یا روزہ،صد قہ ہو یا زیارت ، حج ہو یا کو ئی اور چیز ”قر بتہ الی اللہ “کسی چیز کا انجام دینا ہو یا تر ک کر نا ہو یا اس کے علاوہ کو ئی اور چیز ہو ۔

سوال :  اور جب انسان عمداً نذر کو پورا نہ کرے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب :  اس پر کفار ہ واجب ہے اور وہ کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے یا دس مسکینوں کو کھا نا کھلا ئے یا ان کو کپڑا پہنا ئے ۔

سوال :  اور اگر اپنی غربت کی بنا پر وہ معذور ہو تو ؟

جواب :  تو وہ تین دن پے در پے روزے رکھے ۔

سوال :  اگر کو ئی انسان نذر کر ے کہ مشا ہد مقد سہ میں سے کسی مشہد ،رو ضہ امام علیہ ا لسلام کے لئے اتنا مال دوں گا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب :  تو وہ مال کو اس رو ضہ کی عمارت ،یا اس کے فرش ، یااس کے ساز و سامان یا اس کے کسی اور فائدہ میں خرچ کرے اگر نذر کرنے والے نے مذکورہ چیزوں کے علاوہ کسی معین چیز کے متعلق نذر نہ کی ہو۔

سوال :  اگر انسان نبی یا امام یا ان کی کسی اولاد کے لئے نذر کرے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب :  یہ مال ان کے غریب زوار کو دے دے یا ان کے حرم شر یف یا اس کے مثل کسی دو سرے حرم میں خر چ کردے۔

سوال :  جب انسان ظن قوی رکھتا ہو کہ اس نے کسی معین چیز کی نذر کی تھی تو کیا اس پر نذر کا پورا کرنا واجب ہے ۔

جواب :  اگر اسے اطمینان ہو کہ اس نے نذر کی تھی تو اس پر نذر کا پور ا کرنا واجب ہے ورنہ اس کا پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ میرے والد نے اس کے بعد مزید فر مایا: کبھی انسان خدا سے عہد کرتا ہے کہ میں یہ کام کروں گا یا کہتا ہے ”عا ہدت اللہ ان افعل “ خدا سے عہد کرتا ہوں کہ میں یہ کا م کروں گا یا کہتا ہے ”علی عہد اللہ انہ متی کان ۔۔۔۔فعلی۔۔۔۔“مجھ پر اللہ کا عہد ہے کہ جب یہ کام”’ تو مجھ پر “‘پس جب وہ یہ کہہ دے تو اس پر وہ عہد پورا کرنا واجب ہے جو اس نے کیا ہے۔

سوال :  تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ عہد ، نذر کی مانند ہے جو معین صیغہ کے بغیر صحیح نہیں ہے ؟

جواب :  ہاں عہد نذر کے ما نند ہے ، اور عہد اسی چیز میں صحیح ہو گا جو شر عی طور پر رجحان رکھتی ہو ، چا ہے اس کا رجحان دنیوی وذاتی ہی کیوں نہ ہو ، اور عہد میں وہی شرائط ہیں جو نذر میں بیان کئے جا چکے ہیں ۔

سوال :  اور اگر انسان اس عہد کی خلاف ورزی کرے کہ جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو ؟

جواب :  اس پر کفارہ واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے ، یا سا ٹھ مسکینوں کو کھا نا کھلائے یا پے در پے ساٹھ روزے رکھے ۔

میرے والد نے اس کے بعد مزید فرمایا : اور قسم کا پورا کرنا بھی اسی طرح واجب ہے اگر کوئی عمداًاس کی مخا لفت کرے تو اس پر کفارہ واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام کوآزاد کرے یا دس مسکینوں کو پیٹ بھر کھا نا کھلا ئے یاتین دن مسلسل روزہ رکھے اور قسم یا یمین میں لفظ کا ہو نا شر ط ہے قسم اللہ تعا لیٰ کے متعلق ہو اور جس چیز کی قسم کھا رہا ہے اس کے پور ا کرنے پر وہ قدرت و استطاعت رکھتا ہو اور اس پر عمل کرنا بھی اس کے لئے ممکن ہو ، جس چیز کی قسم کھا رہا ہے وہ شر عی طور پر پر رجحان رکھتی ہو ، چا ہے وہ مصلحت ذاتی و شخصی ہی کیوں نہ ہو ، اور قسم کھا نے والا بالغ و عاقل ہو ، اور قصد و اختیار کے سا تھ قسم کھائے ۔

سوال :  ذرا مجھے اس یمین یا قسم کی مثال دیجئے کہ جس کا پورا کرنا واجب ہے ؟

جواب :  مثال کے طور پر جب انسان کہے ”واللہ لافعلن “خدا کی قسم میں اس کام کو ضرور انجام دوں گا یا یہ کہے :”باللہ لا فعلن“یا ”اقسم باللہ “یا ہے ” اقسم برب المصحف“ کہ یہ تمام جملے تقر یباً  ہم معنی ہیں “یا اس کے علاہ اور بھی قسم کھا نے کی صورتیں ہیں

سوال :  اور جب کوئی دوسرے انسا ن کو مخاطب کرتے ہو ئے ”واللہ لتفعلن“خدا کہ قسم تو ضرور ایسا کام کرے گا تو ؟

جواب :  کسی دوسرے انسان سے متعلق قسم یا یمین منعقد نہیں ہو گی ، اور نہ ہی زمانہ ما ضی سے متعلق قسم منعقد ہو گی ، اور اسی و جہ سے قسم و یمین پر کو ئی اثر مرتب نہیں ہو گا ، اسی طرح اگر باپ بیٹے کو یا شو ہر بیوی کو قسم کھا نے سے منع کریں تو ان کی قسم صحیح نہیں ہو گی ۔ اور جب بیٹا بغیر باپ کی اجا زت کے اور زوجہ بغیر شوہر کی اجازت کے قسم کھا ئیں تو قسم یا یمین کے صحیح ہو نے کا دارو مدار باپ یا شو ہر کی اجازت پر منحصر ہے ۔

سوال :  کبھی انسان سچائی پر حلف اٹھا تا یا قسم کھا تا ہے اور وہ در حقیقت سچا ہے یا کسی معین چیز پر حلف اٹھاتا ہے اور وہ حلف اٹھا نے میں سچا ہے تو ؟

جواب :  سچی قسمیں کھا نا حرام نہیں ہے ، لیکن مکر وہ ہے ۔ البتہ جھو ٹی قسمیں کھا نا حرام ہے ۔ اور گنا ہان کبیرہ میں سے ہیں ۔ مگر یہ کہ کو ئی اہم ضرورت پیش آ جائے تو ۔

سوال :  اور یہ کس طرح ہے ؟

جواب :  جب انسان قسم حلف کے ذریعہ کسی ظالم سے اپنے آپ کو یا مو منین میں سے کسی کو نجات دلا ئے تو یہ قسم جائز ہے ۔ اور کبھی جھوٹی قسم واجب ہو جا تی ہے۔ جب کو ئی ظالم کسی مو من یا اس کی نا مو س یا کسی دوسرے مومن یااس کی نا مو س کو ڈرائے دھمکائے ہاں اگر یہاں ”تو ریہ “کر سکتا ہو تو اپنے کلام میں استعمال کرے ۔

سوال :  ”اپنے کلام میں تو ریہ استعمال کرے “ اس کے کیامعنی ہیں؟

جواب :  تو ریہ یہ ہے کہ متکلم ذو معنی کلام استعمال کرے اور اس کا ظاہر ی معنی مراد نہ لے اور اس پر کو ئی واضح قر ینہ بھی قائم نہ کرے ۔ مثلا کو ئی ظالم کسی مو من کے بارے میں پو چھے اور تم کو ڈر ہو کہ وہ اس کو ضرر پہنچائے گا تو تم اس کو یوں جواب دو ”میں نے اس کو نہیں دیکھا “ہاں ایک گھنٹہ پہلے میں نے اس کو دیکھا تھا ، اور تمہارا مقصد اس سے یہ ہو کہ ابھی چند منٹ پہلے اس کو نہیں دیکھا ۔

۸/۳/۸۴کو صحٰیح پوری  ہو گئ۔

 

index