next

ذبح اور شکار کے سلسلہ میں گفتگو

back

 

میں آپ سے پوشیدہ نہیں رکھنا چا ہتا کہ جب اس گفتگو کا وقت آیا کہ جس کا نام ذبح و شکار ہے ، میرے دل میں اس چیز کے سننے سے کو ئی خوف پیدا نہ ہوا اور نہ کو ئی چیز اثر انداز ہو ئی ۔

میں نے گمان کیا تھا کہ آج میں اس (ذبیحتہ ۔ذبح)سے اس قساوت قلبی کو سنوں گا کہ جو ذبح کی بنا پر ذبح کرنے والے کے دل میں مذ بو ح کی طرف سے ہو تی ہے ۔لیکن میرے دل میں اچا نک خیال آیا کہ کیا تو نے اس نر می و ملا ئمت کو نہ سنا کہ جو شر یعت اسلامی کی طر ف سے حیو ان کے ذبح کرنے والے کو تلقین ہو ئی ہے وہ اپنے اس حیوان کے سا تھ کس طرح بر تا ؤ کر ے؟ کیا تو نہیں جا نتا کہ یہ تمام اہتمام حتیٰ حیوان کے سامنے اس کو ڈرانا اور خوف دلا نا یا اس میں جوش و خروش پیدا کرنا ۔ شر یعت اسلامی نے حیوان کے ذبح کرنے والے کو اس پر تر غیب دی ہے کہ وہ ان چیزوں کو انجام نہ دے ۔کیا تو نہیں جا نتا کہ یہ تمام تر غیب اس بنا پر ہے کہ حیوان کو تکلیف اور ایذا ء نہ پہنچے ۔ شر یعت اسلامی نے ذبح کرنے والے کو ان چیزوں پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے ۔ 

میں اپنے ذہن میں انھیں افکار پر غور کر رہا تھا اور انہیں افکار کے مقا بل میں اپنے ذہن میں ان صورتوں کا قیاس کر رہا تھا کہ جو حیوان کے لئے خوف واذیت کا سبب ہیں اور اسی کے سا تھ میں اپنے والد کی طرف کان لگا ئے ہو ئے تھا کہ جو حیوان کے ذبح کرنے کے مستحبات کو مجھ سے بیان کر رہے تھے ۔میرے والد نے فرمایا حیوان کے ذبح کرنے والے پر مستحب ہے کہ وہ حیوان کو مذبح خا نہ کی طرف نر می اور محبت کے سا تھ لے جائے ۔اور ذبح کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ ذبح سے پہلے اس کو پانی پلا ئے ۔اور مستحب ہے کہ وہ حیوان کو ہتھیار نہ دکھا ئے اور مستحب ہے کہ ذبح کرنے  والا ذبح کر نے میں اتنی جلدی کرے کہ حیوان آسانی کے سا تھ ذبح ہو جائے ۔دوسری جگہ لیجا نے کے لئے حرکت نہ دے کہ وہ مر جائے اور دو سرے حیوان کے سا منے ذبح کرنا مکروہ ہے ۔ اور پا لتو حیوان کا ذبح کرنا مکر وہ ہے اور رو ح نکلنے سے پہلے اس کی کھا ل نکا لنا مکروہ ہے ۔ میرے والد نے یہ فرماکر تبر کاً ایک حدیث کو پڑھا جو نبی پاک سے مروی ہے اس حدیث میں وارد ہوا ہے :

”ان اللہ تعالی شانہ کتب علیکم الاحسان فی کل شئی فا ذا قتلتم فا حسنو القتلۃ، و اذا ذبحتم فا حسنو ا الذ بحۃ و لیحد احد کم شفر تہ،و لیرح ذبیحتہ“

 ”اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کو ہر ایک چیز میں قرار دیا ہے جب تم قتل کرو تو قتل میں احسان کرو اور جب تم ذبح کرو تو ذبح میں احسان کرو اور اپنی چھری کو اتنا تیز رکھو تا کہ وہ جلد ذبح کردے“

سوال :  لیکن میں نہیں جا نتا کہ حیوان کو کس طرح ذبح کروں ؟

جواب :  جب تم ذبح کرنا چاہو تو اس کی تمام گردن کی چاروں بڑی رگوں کو کاٹ دو (ان کو اوداج اربعہ کہا جاتا ہے )

سوال :  او داج ار بعہ کسے کہتے ہیں ؟

جواب :  وہ چار رگیں ہیں ”مری “کھا نے کی نلی ”حلقوم “سا نس لینے کی نالی اور دوجان کہ یہ دو رگیں ہیں کہ جو مری اور حلقوم کا احاطہ کئے ہو ئے ہیں۔

 سوال:  ذرا و ضاحت کے سا تھ بیان کیجئے ؟

 جواب : جو ذبح کے ما ہر ین ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر تم اوداج اربعہ کو قطع کرو تو تم (جوزہ )سرکے سمت پہنچ جاؤ گے اگرتم اس کا کچھ حصہ جسم میں پاؤ تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ تم نے اوداج اربعہ کو مکمل طور پر قطع نہیں کیا کیو نکہ جو زہ حلقوم اور مری کے جمع ہو نے کہ جگہ ہے اور جوزہ کے اوپر نہ حلقوم ہے نہ مری۔ 

سوال:   اس کے معنی یہ ہو ئے کہ جب میں ذبح کروں تو جو زہ کے نیچے سے کا ٹوں نہ کہ اس کے اوپر سے ؟

جواب :  اسی طرح جوزہ کے نیچے سے کاٹوں تا کہ جو زہ جسم میں نہ رہے ۔

سوال :  اگر میں نے غلطی سے جوزہ کے اوپر سے کا ٹا،نہ کہ اس کے نیچے سے پھر میں اپنی خطا سے آگاہ ہوا تو میں ذبیحہ کے مر نے سے پہلے اس کو جوزہ کے نیچے سے کاٹ سکتا ہوں ؟

جواب :  ہاں تمہارے لئے جائز ہے ۔اور چو پاؤں میں اونٹ مخصوص طور پر نحر کیا جاتا ہے،نہ کہ ذبح کیا جاتا ہے ۔

سوال :  اونٹ کو کس طرح نحر کرتے ہیں ؟

جواب :  جب تم او نٹ کو نحر کرنا چا ہو ۔ چھر ی یا نیزہ یا اور کو ئی لو ہے کاتیز ہتھیار اس کے لبہ میں داخل کردو۔

سوال :  لبہ کیا ہے ؟

جواب :  لبہ وہ گہری جگہ ہے کہ جو سینہ سے اوپر واقع ہے اور گردن سے ملی ہو تی ہے ۔

سوال :  اب میں نے پہچان لیا کہ کس طرح بھیڑ ،بکری گائے ، مر غ اور کبو تر و غیرہ کو ذبح کرتے ہیں اور اونٹ کا نحر کرنا بھی معلوم ہو گیا ؟

جواب :  جب تم کو یہ معلوم ہو گیا کہ حیوانات مثل  بھیڑ ،بکری گائے ، مر غ اور کبو تر و غیرہ کوکس طرح ذبح کرنا چا ہئے  ہو تو اس بناپر ان حیوانات کا گوشت تم پر حلال ہو گیا پس ضروری ہے کہ حیوانات کے ذبح کرنے میں چند شر طیں ہیں ان کو بھی یاد کر لو اور وہ یہ ہیں:

(۱)ذبح کرنے والا مسلمان ہو ،مرد ہو ، یا عورت ، یا بچہ میز ہو ، پس کا فر کا ذبیجہ حلال نہیں ہے (یہاں تک کہ اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال نہیں )

(۲)حتی الا مکان ذبح کرنے والے کے پاس لو ہے کا ہتھیار ہو ا گر لو ہے کی چیز نہ ہو تو پھر تا نبا ، پیتل یا شیشہ یا پتھر کی تیز چیز سے اس طرح ذبح   کرے کہ جو چار وں رگوں کو کاٹ دے ۔

سوال :  اسٹیل کی بنی چھریوں سے ذبح کرنا کیسا ہے؟

جواب :  اسٹیل(کروم)کا بنتاہے اور ایک دوسرا مادہ لو ہے کے علاوہ ہو تا ہے ۔پس اس سے ذبح کرنا اشکال ہے ۔

(۳)       ذبیحہ (حیوان) قبلہ رخ ہو نا چا ہئے اور جب وہ کھڑا ہو یا بیٹھا ہو تو بد ن کا اگلا حصہ چہرہ ،دونوں ہاتھ،پیر اور پیٹ قبلہ کے رخ ہو نگے جیسے نماز کی حالت میں انسان قبلہ رخ کھڑا یا بیٹھا ہے ۔لیکن اگر ذبیحہ زمین پر لیٹا ہوا ہو تو قبلہ کی طرف اس کا پیٹ اور نر خر ہ ہو گا۔

سوال :  اگر ذبح کے وقت ذبیحہ قبلہ کی طرف نہ ہو تو ؟

جواب :  جان بو جھ کر حرام ہے ۔

سوال :  اگر جان بو جھ کر نہ ہوا ہو تو ؟

جواب :  اگر ذبیحہ کا قبلہ کی طر ف نہ ہو نا خطا اور نسیان کا سبب ہو ، یا اس کو قبلہ کی سمت معلوم نہ ، یا ذبیحہ کو قبلہ کی طرف نہ کر سکتا ہو ، یا اصلاً جا نتا نہ ہو کہ قبلہ کی سمت کرنا ذبح کے شر ائط میں سے ایک شر ط ہے کہ جس کی بناپر ذبیحہ کا گو شت کھانا حلال ہے۔ جب ان اسباب میں سے کو ئی سبب ہو تو پھر ذبیحہ حرام نہ ہو گا۔

(۴)ذبح کرتے وقت نام خدا کا ذکر کرے ، چا ہے یہ ذکر ذبح کے وقت ہو یا ذبح سے پہلے ہو لیکن عر فاًمتصل ہو۔

سوال :  نام خدا میں کیا کہنا چا ہئے ؟

جواب :  بسم اللہ یا الحمد للہ یا اللہ اکبر کہہ دینا کا فی ہے ۔

سوال:   اگر ذبح کرنے والا خدا کا نام لینا بھول جائے تو ۔

جواب :  ذبیحہ حرام نہ ہو گا۔

سوال :  میں بعض قصابوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ ذبح کرتے وقت ذبیحہ کا سر کاٹ دیتے ہیں؟

جواب :  تم ان سے کہو (ذبیحہ کے سر کو عمداً جدا نہ کرو اور حرام مغز کواس کی روح نکلنے سے پہلے نہ نکالیں ۔)حرام مغز ایک سفید دھا گہ کے مثل ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں گردن سے لے کر کمر تک ہو تی ہے ۔

(۵)       خون ذبیحہ عادت کے مطابق (جتنا خون نکلنا چا ہے ) نکل جائے ،ذبیحہ حلال نہ ہو گا جب تک کہ اس سے خون نہ نکلے یا خون نکلے مگر اتنا کم کہ جتنا اس جیسے حیوان سے نکلتا ہے یا تو رگوں میں خون کا انجماد ہو نے کی بناپر یا پہلے زخم لگنے پر خون ریزی کی وجہ سے خون میں کمی آگئی تو یہ چیز اس حلیت میں ضررنہ پہنچائے گی (یعنی وہ حلال ہے)

یہی شرائط ذبیحہ میں واجب ہیں ،میرے والد نے فرمایا:

با قی رہ گئی ایک خاص حالت کہ جس کی طر ف اشارہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جب ہم شک کریں کہ حیوان ذبح کے وقت زندہ تھا یا نہیں تو جو شرائط پہلے ذکر کئے گئے ہیں ، اسی کے سا تھ یہ شر ط ہے کہ ذبح کے بعد حیوان حر کت کرے چا ہے وہ حرکت تھو ڑی ہی کیوں نہ ہو جیسے دم کا ہلانا یا پیر کا ہلانا یا آنکھوں کی پتلیوں وغیرہ کو پھیرانا تا کہ اس کا کھانا ہمارے لئے حلال ہو جائے۔

سوال :  اور اگر ہمیں معلوم ہو کہ ذبح کے وقت وہ زندہ تھا ؟

جواب :  تو پھر اس وقت اس کی حرکت کی احتیاج نہیں۔

سوال :  آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اونٹ کا نحر کرنا واجب ہے تو کیا نحر کے علاوہ اس کے گو شت کے کھا نے کی حلیت میں اور بھی کچھ شرائط ہیں ؟

جواب:    جو شرائط ذبح کرنے والے میں ہیں وہ نحر کرنے والے میں بھی ہیں دیکھئے جو نحر کے اوزار میں شرائط ہیں وہی ذبح کے اوزار میں بھی شر ائط ہیں۔دیکھئے اونٹ نحر کرتے وقت اس کا قبلہ رخ کر نا ذکر خدا کرنا اور نحر کے وقت زندہ ہو نا چاہئے اور نحر کے بعد اس سے عادت کے مطابق خون نکلنا چاہئے ۔

سوال :  وہ جنین (بچہ) جو حیوان کے پیٹ میں ہے ؟

جواب :  جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے زندہ با ہر نکلے تو اس کا حکم اس کی ماں کا حکم ہے، ذبح کیا جائے یا نحر کیا جائے۔

سوال :  اگر مرا ہو ا نکلے تو ؟

جواب :  جب اس کی ماں کو ذبح کیا جائے یا نحر کیا جا ئے ان پچھلی شرائط کے مطابق جو بیان کی گئی ہیں پس اگر اس کا بچہ اندر مر جائے ، اور اس کی خلقت کا مل ہو چکی ہو ، اس کے بال اگ گئے ہوں تو اس کا گو شت حلال ہے ۔لیکن اس کے نکا لنے میں اتنی تا خیر ہو کہ وہ مر جائے تو پھر اس کا گو شت حلال نہیں ہے ۔

سوال :  اگر اس کی ماں ذبح کئے بغیر یا نحر کئے بغیر مر جائے اور اس کا بچہ اس کے پیٹ میں مر جائے تو ؟

جواب :  اس کا گو شت حرام ہے۔

میرے والد نے فرمایا ذکر کئے  ہو ئے شرائط اگر حیوان کے ذبح یا نحر کرنے میں جمع ہو جائیں تو ہم اس کو ”مذکیٰ“کہیں گے ۔ پس وہ شر یعت اسلامیہ کے قوا عد و اصول کی بنا پر ذبح کیا ہوا ہے۔

میرے والد نے تشر یح کرتے ہو ئے مزید فرمایا :  بعض حیوانات وہ ہیں کہ جن کا گو شت کھایا جاتا ہے مثلاً  بھیڑ ،بکری گائے، وغیرہ اور بعض وہ ہیں کہ جن کا گو شت نہیں کھایا جاتا مثلاً چیتا ،بھیڑیا ،لو مڑی اور گد ھا  وغیرہ اور بعض حشرات ایسے ہیں کہ جو زمین کے اندر رہتے ہیں۔ اور بعض حیوانات نجس ہیں وہ کبھی پاک نہیں ہو تے جیسے کتا و سور و غیرہ ۔ تمام حلال گو شت حیوانات کا تذ کیہ ہو تا ہے پس جب ان کا تذ کیہ ہو تا ہے تو پھر وہ پا ک اور ان کا گو شت کھا نا حلال ہو جا تا ہے اور ان نجس حیوانات کا تذ کیہ نہیں ہو تا حو کبھی پاک نہیں ہو تے جیسے کتا اور سور وغیرہ

سوال:   اور حیوانات کہ جن کا گو شت نہیں کھایا جاتا مثلاًلو مڑی،شیر اور گد ھا و غیرہ ان کا تذ کیہ ہو تا ہے یا نہیں ؟

جواب :  ان کا بھی اسی طرح تذ کیہ ہو تا ہے سوائے حشرات کے ۔حشرات وہ چھوٹے جا نور ہیں کہ جو زمین میں رہتے ہیں جیسے لا ل بیگ ،چو ہا، ان کا تذ کیہ نہیں ہو تا لیکن ان حشرات کے علاوہ جن کا تذ کیہ ہوتا ہے ان کا گو شت اور کھال اس تذکیہ کے ذریعہ پاک ہو جا تا ہے۔ پس اس و قت ان کی کھال مختلف چیزوں کے استعمال میں جائز ہے ۔یہاں تک کہ اگر ان سے گھی رو غن اور پانی کے برتن بھی بنا ئے جائیں جیسا ہمارے اجداد بناتے تھے تو یہ چیزیں ان بر تنوں سے مل کر نجس نہیں ہوں گی ،اگر چہ وہ چیزیں تری دارہی کیوں نہ ہوں کیو نکہ ان حیوانات کا تذ کیہ ہو گیا ہے ۔

سوال :  اگر ہم کسی مسلمان کے ہاتھ میں ان حیوانات میں کسی حیوان کا گو شت یا کھال پا ئیں کہ جو قابل تذ کیہ ہیں یا ان کا لباس یا فر ش دیکھیں اور ہم نہیں جا نتے کہ یہ چیزیں تذ کیہ کئے ہو ئے جا نور وں کی ہیں یا غیر تذ کیہ جا نور کی تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :  تم جب بھی مسلمان کے پاس کو ئی چیز دیکھو تو کہو یہ مذ کی ہے جب کہ اس چیز میں تصر ف تذ کیہ کا تقا ضہ کرتا ہو۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تم پر ثابت ہے کہو کہ غیر مذ کی ہے ، میرے والد نے مزید فرمایا کہ مثلاً جب تم کسی مسلمان کے ہاتھ میں کو ئی چیز بیچتے ہو ئے پاؤ اور یہ چیز پہلے کا فر کے پاس تھی اور احتمال یہ ہو کہ اس کا تذ کیہ متحقق ہو چکا ہے تو تم کہو (انہ مذکی)یہ تذ کیہ شدہ ہے اور اگر ایسا ثابت نہ ہو تو وہ غیر مذ کی ہے۔

تم غور سے ان چیزوں کو سنووہ یہ ہیں کہ جب تم کو معلوم ہو کہ مسلمان نے کسی کا فر سے اس کے تذ کیہ کی تحقیق کے بغیر لی ہیں اور تم کو اس کے تذ کیہ کا احتمال ہو پس تم کو چا ہئے کہ اس پر طہارت کی بنا ء رکھیں اگر چہ یہ تمہارے لئے ان چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، جس کے لئے تذ کیہ شر ط ہے ۔ جیسے کھانا اور اسی طر ح کا گو شت اور کھالیں و غیرہ کہ جو خود کا فر سے لی جا تی ہیں۔

سوال :  آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم کسی ایسے حیوان کا گو شت یا کھال (جو قابل تذ کیہ ہیں)کسی مسلمان کے ہاتھ میں پا ؤ اور تم کو معلوم نہ ہو کہ یہ مذ کی ہے یا نہیں ؟ تو تم کہو کہ ”یہ مذ کی“ہے ۔ تا و قتی کہ تم پر ثابت نہ ہو جائے کہ یہ مذ کی ٰ نہیں ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟

جواب :  ہاں !ایسا ہی ہے۔

سوال :  جیسا کہ آپ جا نتے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف مذ اہب اور فر قے ہیں ؟

جواب :  ہاں تم کہو کہ یہ مذ کی ہے اب چا ہے یہ مسلمان تمہارے مذ ہب کے مو افق ہو یا مخالف ۔

 سوال : مذا ہب اسلامیہ یا اسلامیہ  فرقوں میں اکثر ایسے ہیں کہ جو آپ نے تذ کیہ کی شر ائط بیان کی ہیں وہ ان شر ائط کو نہیں ما نتے مثلاً کو ئی فر قہ استقبال قبلہ کی شر ط کو نہیں ما نتا، اور ذکر خدا کا قائل نہیں ہے اور نہ اس شر ط کو ما نتا ہے ، کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا چارو ں رگوں (اوداج اربعہ )کے کا نٹے کی شر ط کو نہیں ما نتا؟

جواب:   میں جا نتا ہوں اور یہ کو ئی اہم چیز نہیں ہے کہ تم کہو یہ مذ کی ہے جب تک اس کا تصر ف حیوان مذ کی کے گوشت اور کھال میں ہو اور تمہیں احتمال ہو کہ یہ انہیں شرائط کے مطا بق مذ کی ہے کہ جو ذکر کئے گئے ہیں اگر چہ وہ خود ان شرائط کے لا زم ہو نے کا معتقد نہ ہو بلکہ اگر تمہیں یقین ہو کہ یہ استقبال  قبلہ کی شر ط کی ر عایت نہیں کر تا اس ذبیحہ کی حلیت میں کو ئی نقصان نہیں پہنچا تا ،اگر چہ استقبال قبلہ کی شر ط کے لازم ہو نے کا اعتقاد نہ بھی رکھتا ہو۔

سوال :  وہ حیوانات جو اسلامی ممالک میں مشین کے ذریعہ ذبح کئے جا تے ہیں ؟ 

جواب :    اگر ان میں ذبح کی تمام ذکر شدہ شراط پائی جا تی ہوں تو وہ (مذ کوۃ)تذ کیہ کئے ہو ئے ہیں ۔ پس جب مشین کی دھار دار چھری کی حر کت کا سبب خود کام کرنے والا ہویا مشین کا معین بٹن مسلمان دبائے کہ جس کی بنا پر وہ دھار دار اوزار متحرک ہو اور خدا کا نام ذ بیحوں پر لے اور ذبیحہ کا گو شت کھانا حلال ہے کہ جس طرح ہاتھ سے ذبیح کرنے میں تمام شرائط کی مو جو دگی میں حلال ہو تا ہے۔

سوال :  مچھلیاں اور مچھلیوں کے تذ کیہ کے بارے میں آپ نے بیان نہیں کیا؟

جواب :   مچھلیوں کا تذ کیہ اور اسی کے سا تھ ان کے گو شت کھا نے کی حلیت دو سرے حیوانات کے تذ کیہ سے جو بیان کیا گیا ہے جدا ہے ۔مچھلی کا تذکیہ یہ ہے کہ اس کو پا نی سے زند ہ پکڑکر نکالا جائے یا اس کو ہاتھ سے پا نی کے اند ر شکار کیا جائے ؟؟؟؟؟یا اس کو زند ہ پکڑکر نکالا جائے یا جال یا اس کو کا نٹے کے ذریعے پکڑا جائے یا مچھلی پانی میں ہو اور تم اس کو پکڑلو تو اس کا تذ کیہ ہو گیا یا وہ اچھل کر خود بخود سا حل پر آجائے اور تم اس کو زند ہ پکڑلو تو یہ اس کا تذ کیہ ہے اور اسی طرح کی دو سری مثالیں فر ض کرو۔

سوال :  اگر مچھلی زمین پر اچھل کر آجائے اور اس کو کوئی نہ پکڑے یہاں تک کہ مر جائے تو ؟

جواب : اس کا گو شت کھانا حرام ہے مزید یہ کہ تم نے کسی مچھلی کو زند ہ زمین پر تڑپتے ہو ئے دیکھا اور تم نہیں جا نتے کہ اس کو کسی انسان نے پکڑ کر پانی سے نکالا ہے اور نہ تم نے اس کو اپنے قبضہ میں لیا یہاں تک کہ وہ مر جا ئے تم پر اس کا گو شت کھانا حرام ہے ۔

سوال :  اور ذکر خدا کرنا بھی شر ط ہے ؟ اگر کسی نے مچھلی پکڑ تے وقت نام خدا نہیں لیا تو ؟

جواب :  مچھلی کے تذ کیہ میں خدا کا نام لینا شر ط نہیں ہے۔

سوال :  کیا یہ بھی شر ط ہے کہ مسلمان اس کو زندہ شکار کرے ؟

جواب :  نہیں ، مچھلی کے تذ کیہ میں شر ط نہیں کہ اس کو کسی مسلمان نے زندہ پکڑا ہو ۔

سوال :  اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب کافر مچھلی کو زندہ پا نی سے نکالے تو اس کا کھا نا جائز ہے ؟

جواب :  ہاں اس کا کھانا جائز ہے کا فر اور مسلمان میں یہاں فر ق نہیں ہے۔

سوال :  اور جب کسی مسلمان کے ہاتھ میں مچھلی کو دیکھو ں کہ وہ اس کو بیچ رہا ہے اور میں نہیں جا نتا کہ اس نے اس کو زندہ پا نی سے نکالا ہے کہ میرے لئے اس کا کھانا حلال ہو جائے یا پانی سے مری ہو ئی نکالی ہے پس کیا میرے لئے اس کا کھانا حلال نہیں ؟

جواب :  تم جب تک کسی مسلمان کے ہاتھ میں دیکھوں تو کہو یہ مذ کی ہے اور اس مسلمان کا اس پر تصرف کرنا اس کے تذکیہ پر دلالت کرتا ہے مثلاً کھانے کے لئے بیچ رہا ہے یا دو سری ایسی چیزوں کے لئے بیچ رہا ہے کہ جس میں تذ کیہ ضروری ہے۔

سوال :  اور کسی کافر کے ہا تھ میں دیکھو ں اور معلوم نہ ہو کہ اس کا فر نے اس مچھلی کو پانی سے با ہر نکالا تو مری ہو ئی تھی یا زند ہ ، کیا میں اس کو تذ کیہ شدہ سمجھوں یا غیر تذ کیہ شدہ ؟

جواب :  تم کہو کہ یہ غیر تذ کیہ شدہ ہے ۔

مزید یہ کہ اگر تم کو کو ئی بتائے کہ یہ تذ کیہ شدہ ہے تو اس کا گو شت کھانا تمہارے لئے حلال نہیں ہے مگر یہ کہ تم کو معلوم ہوکہ اس نے پانی سے اس کے مرنے سے پہلے نکالا ہے یا پانی سے با ہر پکڑا ہے حا لا نکہ وہ زندہ تھی یا جال میں داخل ہوکر مری ہے یا اس کا رکا وٹ میں آکر مری ہے کہ جو مچھلی پکڑنے کے لئے بنائی گئی تھی ۔

سوال :  اگر شکاری پانی میں زہر ملادے مچھلی اس کو کھا کر بیہو ش ہو جائے اور تیر نے سے مجبور ہو کر پا نی پر ظاہر ہو جائے ؟

جواب :  جب تم نے اس کو زند ہ پکڑ لیا تو اس کا گو شت کھا نا تمہارے لئے جائز ہے لیکن اگر اس سے پہلے مر جا ئے تو حرام ہو جائے گی ۔

سوال :  اگر شکار ی مچھلی پکڑنے کے واسطے کو ئی رکا و ٹ کھڑی کردے یا جا ل ڈال دے پھر پا نی اس جال یا رکا و ٹ کا سو کھ جا ئے یا کم ہو جا ئے جز ر یا کسی دو سر ے اور سبب سے اور وہ مچھلی اس میں کر جائے ؟

جواب :  اس کا گو شت کھا نا تم پر حلال ہے ۔

سوال :  شکاری مچھلی کو پا نی سے زندہ نکالتا ہے پھر اس کا پیٹ چیر تا ہے یا اس کے سر پر چوٹ مارتا ہے اور وہ مر جا تی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب : اس کا گو شت تمہارے لئے کھا نا حلا ل ہے اس لئے کہ یہ شر ط نہیں ہے کہ مچھلی پا نی سے زندہ نکلے اور وہ کو د مرے پس تمہارے لئے اس کا گوشت کھا نا حلال ہے چا ہے اس کو ٹکڑے کر کے یا بھون کر یا کسی اور طر یقہ سے مارا جائے۔

سوال :  اس سے جو خون خارج ہو تا ہے کیا اس کے بھو ننے سے پہلے اس کا پاک کرنا ضر وری ہے۔

جواب:   مجھلی کا خون پاک ہے۔

 سوال : میں نے اپنے والد سے کہاآپ نے مچھلی کے شکار کے بارے میں گفتگو کی لیکن حیوانات و حشی (جنگلی)کے بارے میں کچھ نہیں بتا یا مثلاً ہر ن کا شکار جب کہ بندوق سے کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب:   حیوان و حشی (جنگلی)کے شکار میں شر ط ہے کہ اس حیوان کا گو شت کھا نا حلال ہو جیسے ہر ن اور پر ندے اور نیل گائے اور جنگلی گدھے وغیر ہ کا شکار جب کہ بندوق سے کیا جائے یا دوسرے اسلحہ سے تو اس میں چند شرائط ہیں جب کہ وہ پا ئی جائیں تو ان کا گو شت پاک اور اسکا کھا نا حلال ہے ۔جیسے کہ ذبیحہ کا گو شت پاک اور حلال ہے ۔

اس کے پا ک ہو نے کی شر ائط یہ ہیں :۔

(۱)شکاری مسلمان یا اس کے حکم میں ہو جیسے ممیز بچہ جیسا کہ ذبح کرنے کی شرائط میں اس کا بیان ہو چکا ہے ۔

(۲)جب شکار ی اسلحہ استعمال کرے تو اس کی نیت شکار کی ہو پس اگر وہ بندوق چلائے ، اور وہ غلطی سے کسی حیوان کے لگ جائے اور وہ اتفاقاًمر جا ئے تو وہ حلال نہ ہو گا ۔

(۳)شکاری اسلحہ کے استعمال کے وقت خدا کا نام لے یا نشانہ لگنے سے پہلے خدا کا نام لے اور خدا کا نام لینے میں (اللہ اکبر )یا(بسم اللہ) (الحمدللہ)کہنا کافی ہے۔

(۴)شکار اسلحہ کے استعمال کے سبب مر جائے یا شکاری اس کو زندہ پائے مگر اس کے تذ کیہ کا وقت و سیع نہ ہو (جیسے ہی شکاری پہنچے) شکاردم تو ڑدے تو حلال ہےاور اگرشکار زندہ ہو اور اس کے ذبح کا وقت با قی ہو اور وہ اس کو ذبح نہ کرےا اور وہ مر جائے تو وہ کھا نا حلال نہیں ہے ۔

(۵)بندوق کے شکار میں واجب ہے کہ گو لی اتنی تیز ہو کہ وہ حیوان کے بدن میں اس طرح پیو ست ہو جا ئے کہ اس کے بدن کو چیر دے تا کہ حیوان کی موت اس گو لی کے بدن میں پیو ست ہو نے اور اس کے چیر دینے کے سبب سے ہو تو اس کا گو شت کھا نا حلال ہے ورنہ نہیں۔

سوال :  جب حلال گو شت جنگلی جا نور مثل ہر ن یاپرندے کا شکار شکاری کتے سے کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب :  اس کے شکار کے بعد اس کا کھا نا حلال و پا ک ہے جب کہ اس میں نیچے بیان کی ہو ئی شرطیں پائی جائیں:

(۱)       کتا اس طرح تر بیت یا فتہ ہو کہ جب شکاری اس کو شکار کے لئے بھیجے تو جائے اور جب اسے روکے تو رک جائے۔

(۲)       ما لک اس شکار کے لئے بھیجے پس اگر خود شکار کے لئے جائے اورمالک اس کو نہ بھیجے تو یہ کا فی نہیں ہے۔

(۳)       جو کتے کو شکار کے لئے بھیج رہا ہے وہ مسلمان ہو جیسا کہ ذبح کے شرائط میں بیان ہو چکا۔

(۴)       کتے کو شکار پر بھیجتے وقت خدا کا نام لے اور (اللہ اکبر)(الحمد للہ)(بسم اللہ)کہنا کا فی ہے۔

(۶)       شکاری کتے کا مالک شکار کی مو ت کے بعد پہنچے یا ایسے وقت پہنچے کہ اس کی حیات کچھ ہی دیر کے لئے ہو ذبح کرنے کا وقت نہ ہو پس اگر شکاری شکار کو زندہ پائے اور اس کے ذبح کرنے کا وقت بھی ہو اور وہ ذبح نہ کرے اور مر جائے تو اس کا کھا نا حلال نہیں ہے ،اور اسی طرح اگر وہ پہنچنے میں تا خیر کرے اور وہ اس کے پہنچنے سے پہلے مر جائے یا ایسے وقت پہنچے کہ ذبح کا وقت تنگ ہو تو وہ حلال نہیں ہے۔

سوال :  جب باز یا عقاب کسی جا نور کا شکار کریں تو ؟

جواب :  ان کا کھا ناجا ئز نہیں ہے، صرف شکاری تربیت یافتہ کتے کے شکار کا گوشت کھانا حلال ہے، کتے نے حیوان کے جس حصہ کو پکڑا تھا وہ نجس ہے اس کا پاک کرنا واجب ہے اور پاک کرنے سے پہلے حیوان کا کھا نا جا ئز نہیں ہے۔

  سوال :          کبھی شکاری پر ندہ سے شکار کیا جا تا ہے اس نے کسی حیوان کا شکار کیا اور اس کے ما لک نے  اس کے شکار کو زندہ پا لیا اور اس نے اس کو ذبح کر لیاتو ؟

جواب :  اس کے شکاری نے اگر اس کا تذ کیہ شر یعت اسلامی کے اصول اور بیان کی ہو ئی شرائط کے مطا بق کیا تواس کا کھا نا حلال ہے ۔

سوال :  میں آپ سے کبھی کبھی سنتا رہتا ہوں کہ آپ ”الحیوان غیر ما کو ل اللحم“(یعنی وہ حیوان کہ جس کا گو شت نہیں کھا یا جاتا )یا ”الحیوان ماکو ل اللحم“ وہ حیوان کہ جس کا گو شت کھایا جا تا ہے جملے استعمال کرتے ہیں ۔ پس کیا ایسے بھی جا نور ہیں کہ جن کا گو شت کھا نا ہمیشہ کے لئے حرام ہے ؟

جواب :  ہاں ایسے بھی حیوانات ہیں کہ جن کا گوشت کھا نا ہمیشہ کے لئے حرام ہے یہ کہہ کر میرے والد تھو ڑی دیر کےلئے خامو ش ہو ئے ۔ گو یا کسی چیز کے بارے میں سو چ رہے ہوں ۔ پھر انہوں نے یہ کہتے ہو ئے اپنے سر کو اٹھا یا کہ میں تمہارے لئے بطور کا مل ان حیوانات کے بارے میں کہ جن کا گوشت کھانا حلال ہے اور جن کا گو شت کھا نا حرام ہے۔ان میں جو اہم ہیں ان کو بیان کروں گا تا کہ وہ تم پر واضح ہو جائیں میرے والد نے فر مایا جن حیوانات میں ، مر غ اور اس کی تمام اقسام اور بھیڑ ، بکری ، او نٹ، گائے، گدھا ،گھوڑا ،خچر اور پہاڑی بکر ا جنگلی گد ھا ، نیل گا ئے ، ہر ن کا گو شت کھانا حلال ہے۔

ان میں کچھ مکروہ ہیں اور ان کا گو شت کھا نا حرام نہیں ہے وہ گھوڑا ، خچر ، اور گد ھا ہے اور پنجہ دار حیوان مثلاً شیر ،لو مڑی و غیرہ کا گو شت کھا نا حرام ہے اسی طرح خر گو ش ہا تھی بند ر ریچھ ، اور اسی طرح سا نپ ، چو ہا ،لال بیگ جو حشر ات الا رض کہلا تے ہیں حرام ہیں۔

نعوذ باللہ انسان نے اگر کسی حیوان سے و طی کی ہو تو اس حیوان کا گو شت کھا نا حرام ہے (اور و طی کرنے کے بعد اس کا دودھ اور اس سے پیدا ہو نے والی نسل کا گو شت کھا نا بھی حرام ہے )اور یہاں و طی سے مراد انسان کا حیوان کے ساتھ جنسی فعل انجام دینا ہے۔ پس اگر وہ حیوان کہ جس سے وطی کی گئی ہے اگر اس کا گو شت کھایا جاتا ہو مثلاً او نٹنی ، گائے، بھیڑ، بکری و غیرہ تو پہلے اس کا ذبح کرنا واجب ہے پھر اس کا جلا ڈالنا واجب ہے ، اور و طی کرنے والا جبکہ اس کا مالک نہ ہو تو اس کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے۔ اور اگر وطی کیا جا نے والا حیوان ایساہے کہ جس کا مقصد صرف اس پر سواری ہے جیسے گھو ڑا ، گد ھا ، خچر تو انہیں اس شہر سے با ہر لے جا کر دو سرے شہر میں بیچ دیا جائے گا اور اگر و طی کرنے والا ما لک کے علاوہ ہے تے اس کی قیمت ما لک کو دی جائے گی اور میرے والد نے مزید فرمایا کہ دریائی جا نو ر وں میں مچھلی کی تمام اقسام کا گو شت تمہارے لئے حلال ہے مگر اس شر ط کے سا تھ کی مچھلی چھلکے دار ہو ۔اور پانی پر تیرنے والی مری ہو ئی مچھلی حرام ہے۔ اسی طرح دو سرے دریائی حیوانات کا کھا نا سوا ئے مچھلی کے جو ذکر ہو ئے ہیں حرام ہے اور خصو صاًجری ، زمیر ،مار ماہی اور سلحفاة (جو بغیر چھلکے کی مچھلیوں کے نام ہیں)اور مینڈ ک ، کیکڑا حرام ہے۔؟؟؟؟؟

سوال :  اور رو بیان مچھلی کا گو شت ؟

جواب : حلال ہے کیو نکہ اس پر چھلکا ہے ۔ اور میرے والد نے اس کے فو راً بعد فرمایا: 

پر ندوں میں سے تمام اقسام کے کبو تر اور تمام اقسام کی چڑ یوں کا گو شت بلبل ،سار ، چکور ،شتر مر غ، مور، ہدہد، ابابیل کا گو شت حلال ہے (اور تمہارے او پر کو ؤ ں کی تمام اقسام کاگو شت حرام ہے اسی طرح شہد کی مکھی اور دوسرے اڑنے والے حشرات سوائے ٹڈی کے حرام ہیں) اور ایسے پر ند ے کہ جن کے پنجے باز و شا ہین کی طرح ہوں حرام ہے۔اور ہر وہ پرندے کہ جس کے پر پھڑپھڑا نے سے زیادہ صاف اور ہموار ہوں یعنی جو پر ندہ اڑتے وقت اپنے پروں کو حر کت نہ دیتا ہو اور اس کے پھڑپھڑا نے سے زیادہ کھلتے رہتے ہوں ان کا گو شت حرام ہے۔

سوال :جن کے اڑنے کی کیفیت معلوم نہ ہو تو ؟     

جواب :  جب کہ ان پر ندوں میں حو صلہ یا قانصہ یا صیصیہ ہو تو تم ان پر ندوں کے گو شت کو حلیت سے تعبیر کرو پس ان تین چیزوں میں سے ایک چیز بھی پائی گئی تو ان کاگو شت کھا نا حلال ہے اور اگر نہ پا ئی جائے تو حلال نہیں ہے ۔

حو صلہ : 

  (پوٹہ)وہ کہ جس میں کھا نے کے دانے و غیرہ جمع ہو تے ہیں اور حلق کے نزدیک ہو تا ہے ۔

قانصہ:

 (سنگ دانہ )وہ ہے کہ جس میں وہ سخت کنکریاں جمع ہو جا تی ہیں کہ جن کو پر ندہ کھا لیتا ہے ۔

صیصیہ:

وہ ہے کہ جو پرندہ کے پاؤں کے پیچھے کا نٹا ہو تا ہے۔

سوال :  بعض قصابوں کو دیکھا ہے کہ وہ ذبیحہ کے بعد گو شت کو کا ٹتے ہیں تو وہ کچھ چیزوں کو نکال کر پھینک دیتے ہیں ؟

جواب :  ہاں ذبیحہ کی نیچے بیان کی جانے والی چیزوں کو نہ کھاؤ:

خون، گو بر،عضو تناسل، پیشاب و پا خانہ کا مقام ، بچہ دانی، تمام مختلف قسم کے غدود ،خصیہ ،وہ چیز جو چنوں کے دانوں کے مانند  مغز میں ہو تی ہیں،حرام مغز ،پتہ /تلی /مثانہ ، آنکھ کا ڈھیلہ (وہ پٹھے جو ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف ہو تے ہیں)یہ تمام چیزیں پر ندوں کے علا وہ دو سرے ذبیحہ میں بھی حرام ہیں لیکن پر ندوں کے ذبیحہ میں اس کا خو ن حرام ہے ، ہاں اگر یہ دوسری چیزیں بھی جو ذکر ہو ئی ہیں ان میں پائی گئیں تو ان سے اجتناب کرو۔

میرے والد صا حب نے جب ان حرام چیزوں کی تعداد کو بتا کر ختم کیا تو وہ خا موش ہو گئے اور میں نے اپنے دل میں کہا ہم ذبیحہ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں کہ اس کی کیا چیز حلال اور کیا چیز حرام ہے تو میں نے ان سے سوال کیوں نہ کیا کہ ذبیحہ کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا کھا نا حرام ہے ، پھر میں نے ان سے کیوں نہ سوال کیا کہ ہماری بحث کھا نے کے بارے میں ہے وہ چیزیں کیا ہیں کہ جو کھا نے میں مستحبات ہیں۔

میں اپنے ذہن میں انھیں چیزوں کو سو نچ رہا تھا کہ میرے والد نے فرمایا کہ تھوڑا مو ضو ع سے خا رج ہو کر دو سو الوں کے بارے میں ، میں کچھ پو چھوں۔ پہلا سوال کیا کچھ اور بھی چیزیں ہیں جو حرام میں شا مل ہیں؟دو سرا سوال ہر روز کھا نے کے دستر خوان پر تین وقت بیٹھتے ہیں کیا کھا نے میں کچھ مستحبات ہیں؟ میرے والد مسکر ائے ، گو یا ان کو کو ئی چیز یاد آئی پھر انہوں نے اپنی اس نشست میں یہ کہتے ہو ئے ذکر کیا پہلے میں پہلے سوال کا جواب دوں گا پھر دوسرے سوال کا جواب دوںگا ۔ہاں یہاں دوسری بھی چیزیں ہیں جو حرام ہیں اور ان کا ہماری اس گفتگو میں ذکر نہیں ہوا ، ان میں سے جو دو اہم چیزیں ہیں میں خاص طور پر ان کا ذکر کروں گا اوروہ دو نوں یہ ہیں۔

(۱)       شراب کا پینا حرام ہے اور دو سرے مسکرات کا بھی ۔ اسی میں (بیر)جو کی شراب بھی شامل ہے ۔ شراب کے پینے کی حرمت پر قرآن مجید میں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

 ”انما الخمر و المیسر و الا نصاب والا زلام رجس من عمل الشیطان فا جتنبوہ“

(شراب ، جوا، جمے ہو ئے بت ،شیطان کے نا پاک کام ہیں لہٰذا ان سے پر ہیز کرو)

بعض حد یثوں میں اس کو گناہ کبیرہ بتایا گیا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

”الخمر ام الخبائث وراس کل شر الی آخر الحدیث“

(شراب تمام خباثتوں کی ماں اور ہر شر کی ابتداء ہے ۔۔۔۔۔)اور اس سے بھی زیادہ اور کیا ہو گا کہ تمہارا اس دستر خوان پر بیٹھ کر کھا نا حرام ہے کہ جس پر شراب پی جا تی ہو یا کو ئی بھی نشہ آور چیز استعمال ہو تی ہو (بلکہ تمہارا اس دستر خوان پر بیٹھنا حرام ہے)۔

(۲)       ہر وہ چیز کہ جو انسان کو ضرر پہنچاتی ہو ایسا ضرر کہ جو بہت زیادہ ہو جیسے ہلا کت و غیرہ جیسے قاتل قسم کے زہر اور ان کی طرح دو سری چیزیں یہ تمہارے پہلے سوال متعلق تھا۔

لیکن تمہارے دو سرے سوال سے متعلق ”کھا نے کے مستحبات “ہیں پس کھا نے کے مستحبات ہیں لیکن کیا تم کو اس کے بیان کی ضر ورت ہے ؟

سوال :  ذرا ان میں سے کچھ کو گنوائیے؟   

جواب :  سنو:

(۱)       دو نوں ہا تھوں کا کھا نے سے پہلے دھو نا۔

(۲)       کھا نے کی ابتدابسم اللہ سے کرنا ۔

(۳)       دا ہنے ہاتھ سے کھا نا ۔

(۴)       خو ب چبا کر کھا نا ۔

(۵)       چھوٹا لقمہ اٹھا نا۔

(۶)       دستر خوان پر دیر تک بیٹھنا اور کھا نے میں طول دینا۔

(۷)       نمک سے کھا نے کی ابتدا اور اختتام کرنا ۔

(۸)       کھا نے سے پہلے پھلوں کا دھو نا۔

(۹)       جب تک بھو ک نہ لگے اس وقت تک نہ کھا نا۔

(۱۰)      گر م کھا نا نہ کھا نا۔

(۱۱)      کھا نے اور پانی میں نہ پھو نکنا۔

(۱۲)      جو پھل چھلکے سمیت کھائے جا تے ہیں ان کا چھلکا نہ اتارانا۔

(۱۳)      پھل کو اس کے کا مل کھا نے سے پہلے نہ پھینکنا۔

(۱۴)      کھا تے وقت لو گوں کے چہروں پر نگاہ نہ کرنا۔

(۱۵)      میزبان کا مہمان سے پہلے کھا نا شروع کرنا اور سب کے بعد ختم کرنا۔

(۱۶)      رو غنی کھا نوں پر پانی نہ پینا۔

(۱۷)      اپنے سا منے سے کھا نا کھا نا اور دو سروں کے سامنے سے نہ کھا نا۔

(۱۸)      پیٹ بھر کر کھانا نہ کھانا ۔

(۱۹)      رو ٹی کو چھر ی سے نہ کا ٹنا ۔

(۲۰)      برتن کے نیچے رو ٹی نہ رکھنا ۔

اور بھی بہت سے مستحبات ہیں کہ جن کے ذکر کی یہاں گنجا ئش نہیں ہے ۔

 

 

index