next

تجارت کے بارے میں گفتگو

back

 

تجارت پر گفتگو

کیا آپ تجارت کے پیشہ کودوست رکھتے ہیں،تو پھر آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ دین میں سوجھ بوجھ حاصل کریں، میرے والد نے یہ فرما کر فوراً کہا کہ ”مَن اَرَادَ التِّجَارَةَ فَلیَتَفَقِّہ فِی دِینِہ“ ( جو شخص تجارت کرنا چاہتا ہے وہ دین میں تفقہ (سوجھ بوجھ) حاصل کرے تاکہ اس کے ذریعہ اس کو حلال و حرام معلوم ہوجائے، جس نے دین میں تفقہ حاصل نہیں کیا اور تجارت کی تو وہ شبہات میں گھر گیا۔

اس گفتگو کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث سے شرف بخشا،میرے والد تجارت کی گفتگو کو شروع کرتے ہوئے امام علیہ السلام کے اس قول کی طرف اشارہ کیا کہ جس میں آپ نے فرمایا:

”غَفَلَ عَنُہَا الکثِیرُون اَوتَغَافَلُوافَتَوَرَّطُوا فِی الشُّبہَاتِ“

”کتنے غافل ہیں کہ جو شبھات میں پڑجاتے ہیں اور اس راز اور اس کی گہرائی کونہیں جانتے کہ فقہ اور تجارت میں بھی کوئی ربط ہے ؟“

لہذا میں نے اپنے والد سے سوال کیا۔

سوال:   ابا جان! تجارت اور فقہ کے در میان کیاعلاقہ ہے؟

جواب:   ہماری شریعت اسلامیہ میں ہماری اقتصادی زندگی کے مختلف پہلووں کا علاج،اس میں عدالت ،بہترین نتیجہ اور معاشر ے کے مختلف طبقات وافراد کے درمیان ثروت کی تقسیم ،جس میں معاشرہ کی سعادت اور خیرو مصلحت ہے، اس بنا پریہ فطری بات ہے کہ شریعت اسلامی اپنے اقتصادی نظریہ کے مطابق کچھ قوانین بنائے کہ ان میں کچھ جائز اور کچھ ناجائز ہوں کہ مختلف حالات کی بناء پر ان قوانین کا دائرہ کبھی وسیع ہوتا ہے اور کبھی تنگ پس مکلف پر واجب ہے کہ وہ اپنے لئے اور اپنے واجب النفقہ لوگوں کے لئے (مثلاًزوجہ اولاد ، ماں باپ جبکہ ان کو اس کی حاجت ہو اور ان کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو)معیشت کے حصول میں کوشش کرے۔

 اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے لقمہ حیات کوحاصل کرنے کے لئے کوشش کرے،اس کیلئے کوئی ایسا در وازہ کھلا نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کوئی بھی عمل اور پیشہ اختیار کرے،پس کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا بیچنا اور استعمال کرنا حرام ہے ۔

سوال:   ذرا مثال دیجئے؟      

جواب:   شراب اور بیر کا بیچنا حرام ہے ،کتوں کا بیچنا (سوائے شکاری کتوں کے)حرام ہے ،سور کا بیچنا حرام ہے ،نجس مردار کا بیچنا مثلاًجس میں گوشت اور چمڑا ہو ،وہ حیوانات کہ جن کو غیر شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو،ان کا بیچنا حرام ہے ،کسی کے مال کا غصب کرنا اور اس کا بیجنا حرام ہے ،اور ایسی چیزوں کا بیچنا جن کا کوئی فائدہ نہیں سوائے حرام کےمثلاًقمار اور حرام کھیل کو د کی چیز  یں جیسے بانسری کا بیچنا حرام ہے،اور ملاوٹ حرام ہے ،سود لینا حرام ہے ،اور کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی اور یہاں ذخیرہ اندوزی سے مراد و ہ اشیا ء ہیں کہ جو اس شہر میں اکثر غذا کے طور پر کھائی جاتی ہوں ،اور ذخیرہ اندوزی اس بات پر موقوف ہے کہ جو غذا میں بنیادی چیزیں شمار ہوتی ہوں،جیسے نمک اور روغن وغیرہ ،اس امید پر ذخیرہ کرنا کہ ان کی قیمت زیادہ ہوگی،جبکہ مسلمانوں کو ان چیزوں کی حاجت ہو اور بازار میں وہ چیزیں نایاب ہوں تو حرام ہے۔

اور حق کی قضاوت یا باطل کی قضاوت پر رشوت لینا حرام ہے،اور آلات قمار سے کھیلنا،جیسے شطرنج،جوا،سٹہ کا بازی لگا کر شرط کے ساتھ کھیلنا بلکہ شطرنج اور جوئے اور ان دونوں کی طرح دوسرے کھیل بغیر بازی کے بھی حرام ہیں،کسی ایسی چیز کی قیمت زیادہ لگانا کہ جس کے خرید نے کا ارادہ نہ ہو بلکہ کسی سے اس نے سنا تو اس چیز کی قیمت زیادہ لگادی،قیمت کی زیادتی کے بعد وہ چیز خریدنا حرام ہے اگرچہ نقصان اور دھوکے سے دوسرا آدمی محفوظ ہو۔

ایسی چیز جو قمار یا چوری وغیرہ کے ذریعے حاصل کی گئی ہو اس کا خریدنا حرام ہے۔

سوال:   یہ وہ حرام چیزیں تھیں کہ جن کا بیچنا اور خرید نا حرام ہے کیا مکروہات بھی ہیں؟

جواب:   ہاں کچھ تجارتی معاملات ایسے بھی ہیں کہ شریعت اسلامیہ کے نزدیک مرجوح(یعنی جن کا رجحان کم)ہیں مکلفین کے لئے ان سے دوری اختیار کرنا یا ان سے بچنا لازمی نہیں ہے پس وہ مکروہ ہیں۔

 سوال:  ذرا مجھے مثال سے سمجھا ئیے؟

جواب:   قیمتی مال کا بیچنا مکروہ ہے مگر یہ کہ اس کی قیمت سے دوسرا قیمتی سامان خریدا جائے،سونے کے عوض سونا اور چاندی کے عوض چانداگر کسی اضافہ کے بغیر ہو تو مکروہ ہے ورنہ اضافہ کی صورت میں حرام ہے،جونیانیا مالدارہوا ہو اس سے فرض لینا مکروہ ہے،اسی طرح انسان کیلئے قصابی،حجامت اور کفن بیچنے کا کام کرنا اور ایسے ہی دوسرے کام مکروہ ہیں اس کے بعد میرے والد نے مزید فرمایا کہ تجارت کے معاملات میں بھی بعض طریقے اور شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں۔

سوال:   مثلاً(وہ کون سے طریقے ہیں)؟

جواب:   جب غش سے نہ ہو تو کسی عیب کا چھپانا مکروہ ہے اور اگر غش(دھو کہ)ہوتو پھر اس عیب کا چھپانا حرام ہے،معاملہ میں سچی قسم کھانا مکروہ ہے،لیکن جھوٹی قسم حرام ہے اور مومن سے زیادہ فائدہ لینا مکروہ ہے اور بیچنے کے بعد قیمت میں کمی کا مطالبہ کرنا مکروہ ہے اور ایسی تاریک جگہ بیچنا جہاں مال کاعیب ظاہر نہ ہو مکروہ ہے بیچنے والے کو مال کی تعریف کرنا اور خرید ار کو مال کی برائی کرنا مکروہ ہے،اس کے علاوہ اور بھی مکروہات ہیں۔

سوال:   یہ تو مکروہات تھے کیا مستحبات بھی ہیں؟

جواب:   ہاں کچھ چیزوں کی تجارت شریعت اسلامی کے نزدیک مرغوب اور محبوب ہے،لیکن وہ مکلفین کے لئے لازمی نہیں ہے اور نہ ان پر واجب ہے بلکہ مستحب ہیں۔

سوال:   مجھ سے جس بارے میں آپ نے فرمایا مثال دے کر بیان کیجئے؟

جواب:   مثلاً مومن کو قرض دینا اور اس سے زیادہ نہ چاہنا مستحب ہے،دوا کا بیچنا مستحب ہے،اگرکوئی کسی کو تجارت کرنے کے لئے کچھ مال دے اس لحاظ سے کہ معین فائدہ طرفین(بیچنے والے اور خریدار) کے لئے ہو تو یہ مستحب ہے،جیسا کہ تجارت کے بعض طور و طریقے شریعت اسلامی کو محبوب ہیں اور اس کو ان میں رغبت ہے ۔

سوال:   مثلاً

جواب:   مستحب ہے کہ بیچنے والا اپنے خریداروںکے در میان جنس کی قیمت میں فرق نہ کرے،اور جنس کی قیمت میں زیادہ سختی نہ برتے،اور جس شخص نے اس سے کوئی معاملہ کیا ہو اور بعد میں وہ پشیمان ہو جائے تو بیچنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اس کی بات کو قبول کرے اور خریدار کی قیمت واپس کرے۔اور انسان کے لئے مستحب ہے کہ وہ کم لے اور زیادہ دے اور قیمت کاکم کرنا مستحب ہے۔

اپنے کا روبار کی جگہ کادروازہ کھول کر اس میں بیٹھنا مستحب ہے،رزق کے حصول کے لئے جد و جہد کرنا مستحب ہے،بیچنے میں احسان و بخشش مستحب ہے،بیع وشراء میں اچھا پیشہ اختیار کرنا مستحب ہے،طلب رزق کے لئے ہجرت کرنا اور اس کے حصول میں کوئی نئی رو ش اختیار کرنا مستحب ہے،ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مستحبات ہیں،میرے والد نے مزید فرمایا کہ کچھ تجارتی معاملات اور ان کی روش ایسی ہے کہ جو شریعت اسلامی کے نزدیک نہ محبوب ہیں اور نہ مبغوض،پس انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس معاملہ کو چاہے اختیار کرے اور جس کو چاہے چھوڑے، کسی ایک معاملہ کو کسی دوسرے معاملہ پر ترجیح دیئے بغیر پس وہ معاملات مباح ہیں،جیسے آجکل کے بہت سے تجارتی معاملات،میرے والد نے اس کے فوراًبعد کہا :

شریعت اسلامیہ نے ان تمام چیزوں کے لئےکچھ شرائط رکھی ہیں کچھ شرائط جس چیز کو بیچنا چاہتا ہے اس کے بارے میں شرائط ہیں ،کچھ شرائط خود بیع میں ہیں اور چند خریدار شرائط کے بارے میں ہیں۔

سوال:   جس چیز کو بیچا جاتا ہے اس میں کیا شرائط ہیں؟

جواب:   اس میں چند شرطیں ہیں:

(۱)       جس چیز کو بیچا جاتا ہے اس کی مقدار،وزن،پیمانہ،عدد یا مساحت کے اعتبار سے معلوم ہونا چاہئے یہ اختلاف اجناس کے مختلف ہونے کی بناء پر ہوتا ہے۔

(۲)       بیچی ہوئی چیز کو سپرد کرنے کی قدرت رکھتا ہو پس نہر کی مچھلیاں بیچنا اور پرندہ(جب کہ وہ ہوا میں اڑ رہا ہو)بیچناصحیح نہیں ہے ہاں اگر خریدار بیچی ہوئی جنس کو حاصل کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو پھریہ بیع درست ہے مثلاً کوئی بھاگا ہوا چو پایا بیچا گیا ہو اور خریدار اس کو پکڑنے پر قدرت رکھتاہے تو یہ معاملہ صحیح ہے۔

(۳)       ان خصوصیات کاعلم ہونا چاہئے کہ جو کسی جنس اور اس کی قیمت میں ہوتی ہیں اور خصوصیات کی بنا پر لوگوں کا رجحان کسی معاملہ میں مختلف ہوتاہے چاہے یہ خصوصیات عام شکل ہی میں کیوں نہ ہوں مثلاً رنگ، مزہ، خوبی اور نقص وغیرہ کہ ان کی بناپر ہر بیچی جانے والی جنس کی بازاری قیمت میں فرق آجاتاہے۔

(۴)       کسی شخص کا اس جنس یا قیمت میں کوئی حق نہ ہوپس وہ مال جو کسی کے پاس رہن رکھا ہوا ہے تو وہ رہن رکھنے والے کی اجازت کے بغیرنہیں بیچ سکتا ۔ اسی طرح وقف شدہ چیز کا بیچنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ وقف کو اس کا کوئی فائدہ ہے بھی تو اتنا کم کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہو۔

(۵)       بیچی جانے والی چیز وہ خود عین جنس ہو، جیسے گھر، کتاب اور سامان وغیرہ پس گھر کا نفع بیچنا صحیح نہیں ہے۔ میرے والد محترم نے یہ فرما کر مزید فرمایا:

اسی طرح کسی شہر میں کسی چیز کو وزن کرکے بیچا جاتا ہے تو اس شہر میں اس جنس کو صرف وزن کرکے ہی بیچ سکتے ہیں اور اسی چیز کو کسی دوسرے شہر میں کسی پیمانہ کے ذریعے بیچا جاتا ہے تو اس شہر میں فقط پیمانہ ہی کے ذریعہ بیچنا درست ہے اور اسی اعتبار سے ہر چیز کو بیچاجائے گا تا کہ جنس کے بارے میں جو علم نہیں ہے وہ دور ہوجائے ۔

سوال :  ذرا مجھے مثال سے سمجھا ئیے؟

جواب:   مثلاًکسی شہر میں پھل تول کربکتے ہیں تو اس شہر میں صرف تول کر ہی بیچے جاسکتے ہیں،اور مثلاً دودھ جس شہر میں لیڑ کے حسا ب سے بیچاجا تا ہے تو اس شہر میں دودھ صرف لیڑ ہی کے ذریعہ بیچا جائے گا،یہ جہالت سے بچنے کے لئے ہے تا کہ کسی قسم کی جہالت نہ رہے۔

یہ چند شرطیں جس چیز کو بیچا اور خریدا جاتا ہے ان کے بارے میں تھیں اور اب یہاں چند شرطیں خود ان چیزوں کے بارے میں ہیں کہ جو بیچی جاتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیچتے وقت کسی معمولی چیز کو معاملہ پر معلق کرنا جائز نہیں ہے ۔

سوال:   ذرا اس پر مجھے مثال بیان کیئجے ؟

جواب:   مثلاًگھر بیچتے وقت خریدار سے یہ کہنا صحیح نہیں کہ میں نے اس گھر کو تجھے بیچا جب کہ مہینہ کا پہلا چاند ہو،یا اس خریدار سے یہ کہا نہیں جا سکتا کہ میں نے اپنی اس گاڑی کو تیرے ہاتھ بیچا جب میرے یہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہو وغیرہ وغیرہ،اگر ایسا اتفاق پیش آجائے تو دوبارہ بیچنے والے اور خریدار میں،خرید و فروخت پر لڑکے کی پیدائش اور رویت ہلال کے بعد اتفاق ہونا چاہئے۔

سوال:   وہ کون سے شرائط ہیں کہ جو بیچنے والے اور خریدار میں پائے جائیں کہ آپ نے جن کی طرف اپنی گفتگو میں اشارہ فرمایا؟

جواب:   بیچنے والا اور خریدار دونوں عاقل ہوں،بالغ ہوں،رشید ہوں،خرید وفروخت کا قصد رکھتے ہوں،مختار ہوں،کسی کے جبر واکراہ سے خرید و فروخت نہ کر رہے ہوں،اس چیز کے تصرف پر قدرت رکھتے ہوں چاہے خود مالک ہوں یا مالک کے وکیل ہوں یا مالک کی طرف سے معاملہ کرنے کی اجازت رکھتے ہوں یااس پر ولی ہوں۔

سوال:   جس چیز کا کوئی مالک ہے اگر اس کے بیچنے پر کوئی اسے مجبور کرے تو؟

جواب:   جب کہ یہ جبرواکراہ کسی ایسے ظالم کی طرف سے ہو کہ جس سے مالک ڈرتا ہو کہ اگر اس کی مخالفت کرے گا تو اس کی جان یا مال یا کسی ایسی اہم چیز کو خطرہ لا حق ہو کہ جو اس سے متعلق ہے تو یہ بیع صحیح نہیں ہے۔

سوال:   بعض دفعہ کسی ظالم کے ظلم کی بنا پر مجبوراًاپنے رہنے کی جگہ کو انسان بدلنے کی وجہ سے اپنی املاک اور ضروری سامان کو بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو ؟

جواب:   یہ بیع صحیح ہے۔

سوال:   آپ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ بیچنے والے کے لئے کیا شرط ہے کہ وہ مالک ہو،یا اس کا وکیل ہو،یا اس کا ولی یا اس کی طرف سے بیچنے پر کسی کو اجازت حاصل ہو اس بنا پر اگر کوئی دوست یا پڑوسی یا رشتہ دار یا اسی طرح کوئی اور بیچے تو؟

جواب:   یہ بیع صحیح نہیں ہے،مگر یہ کہ مالک کی اجازت حاصل ہو،یا مالک کا وکیل ہو یا ولی ہو اگر ایسا نہیں ہے تو بیع باطل ہے۔

سوال:اگرغصب شدہ مال بیچنے کے بعد مالک راضی ہو جائے تو؟  

جواب:   یہ بیع صحیح ہے۔

سوال:   آپ  نے فرمایا کہ بیچنے والے اور خریدار کے لئے  شرط ہے کہ وہ بالغ ہوں پس اگر نا بالغ بچہ اپنے مالک کی چیزکو بیچنا چاہے تو یہ بیع کیسی ہے؟

جواب:   معمولی اور کم قیمت جیسی اشیاء کا بیجنا صحیح ہے کہ جس کا عام طور پر ممیّز بچے معاملہ کرلیتے ہیں،تو یہ معاملہ اوربیع صحیح ہے،اور اگر یہ چیزیں قیمتی اور اعلیٰ ہیں تو پھر ان بچوں کا تنہا اور مستقلاًمعاملہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔

سوال:   بچے کے مال کو بیچنے کا کس کو حق ہے؟

جواب:   اس کے ولی،اس کے باپ،دادا اور باپ یادادا کا وصی اور جب کہ یہ نہ ہوں تو حاکم شرع کو حق ہے،پس باپ کے لئےجائز ہے کہ بچہ کے مال کو اس وقت بیچے کہ جب اس کے بیچنے میں کسی قسم کا فسادنہ ہو،اسی طرح جب بچہ کے باپ دادا او ران دونوں میں سے کسی کا وصی نہ ہوتو حاکم شرع کو اس کا مال مصلحت کا لحاظ رکھتے ہوئے بیچنا جائز ہے۔

سوال:   اور کیا بچے کو اپنے علاوہ کسی کو وکیل بنانے کا حق ہے جیسے باپ،دادا کہ وہ اس کا ما ل اس کی طرف سے بیچیں؟

جواب:   ہاں اس کو یہ حق ہے۔

سوال:   اگر بیع اپنے تمام بیان کی ہو ئی شرائط کے ساتھ تمام ہوجائے اور وہ بیع کسی بھی چیز کی ہوتو کیا خریدار کو حق ہے کہ وہ اپنی خریدی ہوئی چیز کو لوٹا کر اس کی قیمت واپس لے لے؟اور کیا بیچنے والے کو حق ہے کہ وہ قیمت واپس کردے اور جس چیز کو بیچنا ہے واپس لے لے؟

جواب:   بعض حالات میں معاملہ کو باطل کرنے کا حق ہے اور وہ حالات یہ ہیں:

(۱)       جب کہ بیچنے والا اور خریدنے والا بیچنے کی جگہ سے یا راستہ سے جدا نہ ہوئے ہوں تو پھر دونوں میں سےہر ایک  کو معاملہ توڑنے کا حق ہے۔

سوال:   اگر دونوں جدا ہوگئے ہوں اور ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے راستہ کی طرف چلے گئے ہوں تو؟

جواب:   ایسی صورت میں معاملہ لازم او ر ثابت ہو جائے گا یعنی اب معاملہ کو توڑ نہیں سکتے۔

(۲)       اگر بیچنے والا او رخرید نے والا کوئی بھی گھاٹے میں ہوتو اس کو معاملہ توڑنے کا حق ہے مثلاًبیچنے والے نے اپنی جنس کو بازاری قیمت سے اتنی کم قیمت میں فروخت کردیا کہ جو نا قابل گذشت ہے اور بیچنے والا اس کو جانتا بھی نہ تھا بعد میں اس کو اس کمی کا علم ہوا پس اس کو معاملہ توڑنے کا حق ہے ، اسی طرح خریدار جب کوئی چیز بازاری قیمت سے زیادہ قیمت میں خریدے اور وہ اس چیز کو نہ جانتا تھا پھر اس پر حقیقت روشن ہوئی تو اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اس جنس کو واپس کرکے اس کے معاملہ میں جو چیز دی تھی واپس لے لے ۔ 

(۳)       اگر خریدار کسی ایسی چیز کو خریدے جو سامنے نہ ہو،غائب ہو،ان بعض خصوصیات کی بناء پر کہ جو اس کے ذہن میں تھیں یا تو ان خصوصیات کو بیچنے والے نے بیان کیا تھا یا خریدار نے پہلے اس چیز میں ان خصوصیات کو دیکھا تھا پھر بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس جنس میں وہ خصوصیات نہیں ہیں جن کو خریدار نے خیال کیاتھا پس خریدار کو حق حاصل ہے کہ وہ اس جنس کو واپس کرکے معاملہ توڑدے۔

(۴)       جب کہ بیچنے والا او ر خریدنے والا دونوں یہ شرط کریں کہ فلاں مدت معینہ تک دونوں میں سے کوئی بھی معاملہ کو توڑسکتاہے تو پھر اس مدت میں دونوں کو معاملہ توڑنے کا حق حاصل ہے۔

(۵)       جب کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک عہد کرے کہ فلاں کام انجام دیاجائے اور وہ کام معاہدے کے مطابق انجام نہ پایا،شرط کرے کہ جو مال دے رہاہے وہ خاص صفت کا ہو او رخریدنے کے بعد اس مال میں وہ مخصوص صفت نہ پائی گئی ہو تو معاملہ توڑنے کا خریدار کو حق حاصل ہے کہ وہ معاملہ توڑسکتا ہے۔

(۶)       جب خریدار کسی چیز کو خریدے اور اس کے بعد اس چیز میں کوئی عیب دیکھے تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اسے واپس کردے،اسی طرح بیچنے والا قیمت میں کسی قسم کا عیب دیکھے تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ بھی قیمت لوٹاکر اپنی چیز واپس لے سکتا ہے۔

(۷)       معلوم ہو جائے کہ جن چیزوں کو خریدار نے خریدا ان میں سے کچھ ایسی ہیں جو بیچنے والے کی نہیں ہیں،اور مالک بھی ان چیزوں کے بیچنے پر راضی نہیں ہے تو خریدار کے لئے جائز ہے کہ وہ تمام معا ملہ کو توڑدے۔

(۸)       جب کہ بیچنے والا کسی چیز کو خریدنے والے کے سپرد کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو خریدنے والے کو حق حاصل ہے کہ وہ معاملہ کو باطل کردے۔

(۹)       جب کی بیچی جانے والی چیز کوئی حیوان ہو تو خریدار کو تین دن کے اندر اندر حق حاصل ہے کہ بیچنے کی تاریخ سے(ان تین دنوں کے اندر) حیوان کو اس کے مالک کو لوٹا کر اس کی قیمت واپس لے لے،اور اسی طرح حیوان کے بیچنے والے کو حق حاصل ہے کہ وہ ان تین دن کے اندر حیوان کی قیمت خریدار کو واپس کرکے اپنی چیز واپس لے لے۔

(۱۰)      جب کہ بیچنے والا اپنی جنس کی ایسی خصوصیات بیان کرے کہ جو واقعاً اس میں نہیں ہیں تا کہ خریدار کی رغبت اس کے خریدنے میں پیدا ہوجائے پس خریدار کو اس کے خریدنے کے بعد صحیح حال معلوم ہو جائے تو اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اس جنس کو لوٹا کراپنی قیمت واپس لے لے۔

(۱۱)      جب کہ بیچنے والاکسی چیز کو بیچے اور وہ اس کی قیمت حاصل نہ کرے،اور وہ اپنی جنس کو بھی خریدار کے سپرد نہ کرے کیونکہ ابھی اس نے قیمت ادا نہیں کی،تو یہ معاملہ تین دن تک فقط لازم رہے گا اس کے بعد بیچنے والے کو حق ہے کہ وہ معاملہ کو باطل کردے کیونکہ خریدار قیمت لے کر نہیں آیا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بیچنے والے نے خریدار کو قیمت کے ادا کرنے میں بغیر کسی معین مدت کے مہلت دی ہو،اور اگر اس کو مدت معینہ کی مہلت دی گئی ہوتو پھر بیچنے والے کو معاملہ توڑنے کا مدت سے پہلے حق حاصل نہیں ہے،اور اگر اس نے مہلت نہیں دی تو پھر قیمت ادا نہ کرنے کی صورت میں وہ معاملہ کو کسی وقت بھی توڑسکتا ہے۔

سوال:   جب کہ خریدار اور بیچنے والے کے درمیان قیمت کی ادائیگی پر مدت مقرر ہو جائے تو کیا یہ معاملہ قر ض سمجھا جائے گا،کیا اس قسم کا معاملہ صحیح ہے؟

جواب:   معاملہ صحیح ہے جبکہ قیمت کی ادائیگی کی مدت معین ہو،اس میں کسی قسم کی کمی وزیادتی نہ ممکن ہو اور نہ بہت زیادہ مبہم ہو مثلاًدونوں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ کھیتی کی کٹائی کے وقت قیمت ادا کی جائے گی تو یہ معاملہ باطل ہوجائے گا اس لئے کہ کھیتی کی کٹائی کا وقت معین نہیں ہے۔

سوال:   قرض سے بیچنے کے لئے  اگر دونوں کا کسی مدت معینہ تک قیمت کی زیادتی پر اتفاق ہوجائے تو؟

جواب:   یہ جائز نہیں ہے،اس لئے کہ یہ سود ہے اور سود حرام ہے،خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

”اَحَلَّ اللّٰہُ البَیعَ وَ حَرِّمَ الرِّبٰا “

”اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔“

سوال:   مثلاًبیچنے والا او رخریدار دونوں سو(۱۰۰)کلو گیہوں کو ایک سو بیس(۱۲۰)کلو گیہوں کے سودے پر اتفاق کر لیتے ہیں تو کیا یہ سود شمار ہوگا؟۔

جواب:   یہ سود ہے جو کہ حرام ہے۔

سوال:   کبھی دونوں(خریدار اور فروخت کرنے والا)سو کلوگیہوں کو سو کلو گیہوں اور اس کے ساتھ پچاس دینار زیادہ پر اتفاق کر لیتے ہیں تو کیا یہ پچاس دینار سود شمار ہوں گے؟

جواب:   یہ بھی معاملہ اسی طرح سودہے جیسا کہ تم کو پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ حرام ہے،ہاں اگر ناقص چیز کے ساتھ ایک عمدہ رومال بھی دیا جائے اور اس سے مقصد یہ ہو کہ ایک طرف جو گیہو ں ہیں وہ دو سری طرف رو مال کے مقابلہ میں ہیں،اور پچاس دینار جو اس طرف ہیں وہ ان گیہوں کے مقابلہ میں ہیں کہ جو پہلی طرف ہیں، پس اس طرح یہ بیع مطلقاً صحیح ہو جائیگی اور اس سے حرام ربا لازم نہیں آئیگا۔

سوال:   میں کس طرح پہچانوں یہ معاملہ ربا ہے،اور اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟

جواب:   نقد معاملہ میں ربا(سود)دو طرح سے تحقق پاتا ہے۔

(۱)       عوضین(جنس وقیمت)دونوں میں سے ہر ایک ایسی ہوکہ جو ناپی جا سکتی ہو یا تولی جاتی ہو جیسے گیہوں، جو، چاول، مسور،ماش،پھل،سونا، چاندی و غیرہ۔

(۲)       دونوں ایک ہی جنس سے ہوں۔

سوال:   جب معاملہ ادھار ہو۔یعنی” بیع الاجل “ہو تو کیا اس میں بھی ربا(سود) کے تحقق پانے میں اوپروالے دونوں امورشرط ہیں؟

جواب:   نہیں بلکہ جب یہ دونوں امورنہ بھی پائے جاتے ہوں تو بھی ربا متحقق ہوتا ہے۔

(۱)       جب دونوں چیزیں تولی جانے والی ہوں یا ناپی جانے والی چیروں میں سے ہوں،لیکن جنس دونوں کی مختلف ہو،جیسے سو کلو گیہوں کی سو کلو چاول کے مقابلہ میں ایک مہینہ کی مدت تک قرض بیچنا۔

(۲)       دونوں چیزیں ناپی جانے اور تولی جانے والی چیزوں میں سے نہ ہوں لیکن جنس میں متحد ہوں اور زیادتی بھی اس جنس کی ہوجیسے دس اخروٹ کا ایک مہینہ کی مدت تک ادھار بیچنا ۱۵اخروٹ کے مقابلہ میں۔

سوال:   اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب دو چیزیں عددی ہوں یعنی وزنی اور ناپی جانے والی نہ ہوں،جیسے انڈے یا جو چیزیں ہاتھ یا میٹرسے نا پی جاتی ہوں جیسے کپڑا و غیرہ اگر معاملہ نقد ہو تو ان کی خرید و فرخت جائز ہے؟

جواب:   ہاں ان کا معاملہ جائز ہے اسی طرح تیس انڈوں کے ساتھ نقد بیچناجائز ہے اس کے علاوہ اور بھی مثالیں ہیں۔

سوال:   اور سونا کا کیا مسئلہ ہے؟

جواب:   سونا کوبھی ہم مثل سے نہیں بیچ سکتے کیونکہ یہ تولی جانے والی چیزوں میں سے ہے۔

سوال:   گڑھے ہوئے سونے کی چیز بے گڑھے ہوئے زیادہ سونے کے مقابل بیچنا جیساکہ سناروں کے نزدیک رائج ہے،کیا یہ سود شمار ہوگا؟

جواب:   ہاں یہ سود ہے مگر یہ کہ اسی نقص کے ساتھ کسی چیز کو ملا دیا جائے جیسا کہ اس کا پہلے بیان گزر چکا ہے۔

سوال:   اگرگیہوں کی مختلف اجناس ہوں،اور خراب اور ردی گیہو ں کو ستر کلو بہترین گیہوں کی قیمت سے بیچا جائے،یا اسی طرح چاول ہیں  کہ۱۰۰ کلو بہترین چاولوں کو ایک سو بیس کلو چاول کے مقابل بیچا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:   یہ بھی سود شمار ہوگا اس طرح کا معاملہ جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی چیز ضمیمہ(ملا دی جائے )کردی جائے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔

سوال:   اور اگر سو کلو گیہوں کو ستر کلو چاول کے مقابل بیچا جائے تو اس کا حکم بیان کریں؟

جواب:   یہ نقد معاملہ درست ہے،کیونکہ اس ایک جنس گیہوں اور دوسری جنس چاول ہے،اسی کے ساتھ سود میں گیہوں اور جو ایک ہی جنس شمار ہوتے ہیں پس سو کلو گیہوں کا فقط ایک سوپچاس کلو جو کے مقابلہ میں بیچنا جائز نہیں ہے،اسی طرح سود میں تمام قسم کی کھجوریں ایک جنس کی شمار ہوں گی اور گیہوں/ آٹا/روٹی/ایک جنس شمار ہوں گی،دودھ/پنیر/مسکہ ایک ہی نوع اور ایک ہی جنس کے شمار ہو ںگے،اسی طرح رطب/تمر/ان کا شیرہ ایک ہی جنس ہیں،کیونکہ اصل اور اس سے فراغ یقینی میں یہ ہمیشہ ایک جنس معتبر ہے،یہ بات یہاں ختم ہوتی ہے اب سود(ربا)کی دوسری قسم (جو ربا القرض کے نام سے ہے)کے بارے میں بحث ہوگی۔

سوال:   یہ ربا القرض کیا ہے؟

جواب:   قرض دینے والا قرض لینے والے سے قرض سے زیادتی کی شرط کرے ،مثلاًہزار دینار قرض دے اس شرط پر کچھ مدت بعد گیارہ سو دینار  واپس کرے یہ بھی اسی طرح حرام ہے کہ جیساکہ ایک د وسرے کے مقابل لینا حرام ہے۔

سوال:   سود پر قرض دینا ایک قسم کا فائدہ مند قرض ہے نہ کہ قرض بلا فائدہ؟

جواب:   مومن کو قرض دینا بغیر فائدہ کے مستحبات موکدہ میں سے ہے،جیسا کہ آپ سے پہلے بیان کر چکا ہوں،اور خصوصاً مجبور اور حاجت مند لوگوں، کو قرض دینا،نبی پاک سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

”من اقرض مومنا قرضا ینظر بہ میسورہ کان مالہ، فی زکاة وکان ھو فی صلاة الملائکہ حتٰی یودیہ“

”جو کسی مومن کو قرض دے اور اس وقت تک منتظر رہے جب تک اس مومن میں قرض ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو قرض کی ادائیگی کی مدت تک گویا اس نے اپنے مال کی زکات دی اور گویا اس وقت تک وہ ملائکہ کے ساتھ نماز میں مشغول ہے“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

”مکتوب علی باب الجنۃ الصدقۃ بعشرةوالقرض بثمانیۃ عشر“

”جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے کہ صدقہ دینے میں دس نیکیاں ہیں اور قرض دےنے میں اٹھارہ نیکیاں ہیں“

سوال:   یہ قرض کاحال تھا کہ اب ذرا آپ مجھ کو کچھ شرکت کے احکام بتائیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرا ایک بھائی اپنے کسی دوست کے ساتھ مشترک تجارت کرنا چاہتا ہے؟

جواب:   شرکت دو بالغ، عاقل، آزاد اور مختاز کے در میان جائز ہے جب کہ کوئی ان میں سے مجبور اور مفلس نہ ہو۔

میرے والد نے یہ فرما کر مزید فرمایا:

عقد شرکت کئی قسموں پر واقع ہوتا ہے ان میں سے جو اصطلاحاً بولا جاتاہے: وہ شرکت اذنیہ ہے،اوریہ اس بات پر مو قوف ہے کہ دو شخص آپس میں شرکت کرنا چا ہیں تو وہ اپنے مال کا کچھ حصہ اس طرح ملا دیں کہ ایک دوسرے کے مال کی تشخیص نہ ہو سکے اس میں دو شریکوں میں سے ہر شریک کو یاشر کا ء میں سے ہر شریک کو عقد کے فسخ یا شرکت کو باطل کرنے کا حق حاصل ہے،اور اسی طرح مال کی تقسیم کرنے کا بھی مطالبہ کرنے کا حق ہے ،جب  کہ کسی شریک کو اس تقسیم سے ظاہر اً ضرر نہ پہنچے ،پس اگر عقد شرکت کو ان میں سے کو ئی ایک فسخ کردے تو کسی کو مشترک مال میں تصرف کا حق نہیں ہے ،ا ور دونوں شریکوں میں سے ہر شریک اپنے مال کی نسبت نفع اور نقصان میں شریک ہے، پس اگر دو نوں کا حصہ مساوی  ہے تو نفع ونقصا ن میں بھی مساوی ہیں اور اگر دونوں کا حصہ الگ الگ ہے تو ان میں سے ہر شخص اپنے حصہ کی نسبت مال کے نفع اور نقصان میں بھی شریک ہے۔

سوال:   اگر دونوں شریک نفع میں کسی کی زیادتی پر متفق ہو جائیں کیونکہ وہ کام کی بنا پر شریک ہیں یا اس کا کام اپنے دوسرے شریک کی نسبت زیادہ یا اہم ہے یا ان میں سے کچھ نہیں ہے بلکہ ایسے ہی متفق ہو گئے ہیں تو ؟ 

جواب:   یہ اتفاق صحیح ہے اور نا فذ ہے ۔

سوال :  جو کام کر رہا ہے اس کے ہا تھ سے اگر شر کت کے مال میں سے کچھ تلف ہو جائے تو ؟

جواب :  کام کرنے والا شریک امین ہے تلف شد ہ چیز کا وہ ضا من نہیں ہے ۔ہاں اگر اس نے لا پر واہی یا کسی قسم کی غفلت بر تی ہے تو پھر وہ ضامن ہے ۔

سوال :  اس زمانہ میں لو گوں کے درمیان ایک دوسرا معاملہ رائج ہے جو شر کت سے مشابہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کو ئی شخص کسی کو تجارت کرنے کی غر ض سے کچھ مال دیتا ہے تا کہ اس کا طے شد ہ منا فع دو نوں کے درمیان تقسیم ہو جیسے آدھا یا تہائی یا چو تھائی توکیا یہ معاملہ صحیح ہے ۔؟

جواب :  یہ معاملہ صحیح ہے جب کہ یہ دو نوں شریک متفق ،با لغ ، عاقل ، رشید اور مختار ہوںاور ما لک مفلس کی بنا پر مجبور نہ ہو (یعنی حا کم شر ع نے کسی شریک کو اس کے دیوانے پن کی بنا پر اپنے مال میں تصر ف کرنے سے روکا نہ ہو ) اس کو مضا ربہ کہا جاتا ہے۔

سوال :  اور عامل کام کرنے والے کا کیا حکم ہے ؟

جواب :  اگر یہ عامل تفلیس کی بنا پر مجبور بھی ہو تو اس کی شر کت جا ئز ہے ۔ جب کہ ان کا اتفاق اس کے ممنو عہ مال میں تصرف کا سبب نہ بنے پھر مالک اور عامل میں سے ہر ایک کو حق ہے کہ وہ کام شروع ہو نے سے پہلے یا بعد منافع حاصل ہو نے سے پہلے یا بعد اپنے اتفاق کو ختم کر دیں اور اسی کے  ساتھ عامل کو کسی قسم کا گھا ٹا نہ ہو جب کہ اس نے کو ئی غفلت اور بے تو جہی نہ بر تی ہو ۔

سوال:   جب مالک شر ط لگائے کہ اگر نقصان ہو گا تو عامل کو وہ تمام کا تمام برداشت کرناپڑے گا تو کیا یہ شر ط صحیح ہے ؟

جواب:   یہ شر ط صحیح ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ منا فع میں بھی تمام عامل کا ہو گا مالک اس میں شر یک نہ ہو گا ۔

سوال:   اور اگر شر ط کر یں کہ خسارہ بھی دو نوں پر ایک سا تھ مثل منا فع کے ہو گا ؟

جواب:   یہ شر ط با طل ہے ہاں اگر عامل کے لئے شر ط لگا ئی جائے کہ وہ خسارے میں سے کچھ کا یا تمام خسارہ کا تد ارک کرے اور اپنے خاص مال سے اس میں خمیا زے دے تو یہ شر ط صحیح ہے اور اس کا پور ا کرنا لا زم ہے ۔

سوال:   اورجب دو نوں میں اختلاف ہو جا ئے کہ عامل کاحصہ کتنا ہے ، عامل کہے کہ میرا حصہ زیادہ ہے، مالک کہے عامل کاحصہ کم ہے اور عامل کے پاس بینہ ”گواہی“بھی نہ ہو تو؟

جواب:   قول قول مالک ہے (یعنی مالک کا قول قبول ہے)حاکم شرع معاملہ حل کرنے کے لئے مالک سے حلف لے گا جب کہ مالک کا قول ظاہر کے مخالف نہ ہو۔

سوال:   یہ قول ظاہر اًمخالف کس طرح ہوگا؟

جواب:   اس کی مثال یوں ہے کہ مالک منافع کی مقدار عامل کے حصہ کی اتنی کم بیان کرے کہ عادة اتنی کم مقدار قرار نہ دی جاتی ہو مثلاً ہزار میں سے ایک اور عامل اس سے زیادہ کا دعویٰ کرے جو متعارف مقدار ہے۔

سوال:   جب کہ عامل دعوی کرے کہ پونجی تلف ہو گئی ہے یا خسارہ ہو گیا ہے یا منافع نہیں ملا، اورمالک اس کا انکار کرے ؟

جواب:   حاکم شرع کی طرف رجوع کرتے ہوئے قول عامل قبول کیا جائے گا،جب ظاہراً اس کا قول مخالف نہ ہو جیسا کہ وہ دعویٰ کرے کہ پونجی جل کر تلف ہوگئی ہے،دوسرے اموال جو اس کے ضمن میں تھے وہ تلف نہیں ہوئے ۔

سوال:   جب کہ مالک دعویٰ کرے کہ عامل خائن ہے یا اس نے اموال میں زیادتی کی ہے؟

جواب:   قول ،قول عامل ہے جب کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کیا جائے اسی شرط کے ساتھ جو اوپر بیان ہوئی ہے۔

سوال:   کبھی انسان کسی دوسرے انسان کو وکیل بناتا ہے تاکہ وہ اس کے کام میں اس کے قائم مقام رہے گویا وہ خود اس کو انجام دے رہا ہے۔ جیسے ایک انسا ن کسی دوسرے انسان کووکیل بناتا ہے کہ وہ اس کا گھر یا اس کی جگہ وغیر ہ بیچے تو کیا اس کے بھی کچھ خاص شرائط ہیں؟

جواب:   ہاں وکیل اور موکل دونوں کا عاقل ہونا معتبر ہے ۔اپنے ارادہ کے ساتھ دونوں وکالت کو اجراء کریں۔دونوں مختار ہوں ،مجبور نہ ہوں۔ اسی طرح موکل میں بلوغ کو معتبر سمجھا گیا ہے ۔مگر یہ کہ اگر ممیز بچہ وکیل بنائے تو اس کا وکیل بنانا صحیح ہے۔

سوا ل:  کیا وکیل بنانے میں کوئی لفظ یا کوئی صیغہ خاص ہے؟

جواب:   نہیں وکالت کے لئے کوئی معین لفظ نہیں ہے ۔اور نہ کوئی معین صیغہ ہے،بلکہ اس پر جو بھی قول،فعل یا کتابت کرے کافی ہے۔اور وکالت وکیل یا موکل کے مرنے سے باطل ہو جاتی ہے۔

سوال:   کبھی انسان گھر یا دوکان یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر لیتا ہے یا کبھی خود اپنے آپ کو کرایہ پر دیتا ہے مثلاً درزی، معمار اور ڈرائیور وغیرہ پس آپ بتائیں کہ اجارہ میں کیا چیزمعتبر ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟

جواب:   اجارہ (کرایہ)مالک ،وکیل،ولی کی طرف سے صحیح ہے اور دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے ،جب وہ لوگ مالک یا وکیل یا ولی کی طرف سے اجازت حاصل کئے ہوئے ہوں۔اور اجارہ دینے والے اور اجارہ لینے والے میں بلوغ ،عقل اورا ختیار معتبر ہے اور وہ لوگ اپنی سفاہت یا تفلیس کی بنا پر اپنے مال میں تصرف کرنے سے روکے نہ گئے ہوں۔ہاں جو فلس ہے اس کا پانے کے لئے اجارہ لینا صحیح ہے ۔جو چیز کرایہ پر دی جاتی ہے جیسے جگہ وہ معین ہو،کرایہ لینے والا اس کو دیکھے ،یا کرایہ دینے والا اس طرح اس کی خصوصیات بیان کرے کہ کرایہ لینے والے کو اس کا پورا علم ہو جائے ،کرایہ دینے والا اس چیز کو کرایہ لینے والے کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔ہاں اگر کرایہ دار اس کو حاصل کرنے پر قدرت رکھتا ہو تو یہ چیز کافی ہے،وہ چیز ایسی ہو کہ اس سے نفع اٹھانے کے باوجود وہ چیز اپنی جگہ پر باقی رہے۔اور اس چیز سے حلال نفع حاصل کیا جائے اگر کسی جگہ کو شراب بیچنے کے لئے کرایہ پر دیا جائے تو صحیح نہیں ہے ،اسی طرح دوسری حرام چیزوں کے لئے جگہ کو کرایہ پر دینا صحیح نہیں ہے۔ 

سوال:   کیاکرایہ کے لئے کوئی معین لفظ ہے ؟

جواب:   نہیں کرایہ کے لئے کوئی لفظ معین نہیں ہے،بلکہ اس کے صحیح ہونے میں ہر فعل جو کرایہ پر دلالت کرے کافی ہے ،مثلاً گونگا جو بات نہیں کر سکتا اگر اس کو اشارے سے سمجھا دیا جائے کہ کس چیز کو اجارہ پر لیا جارہا ہے یا اجارہ پر دیا جار ہا ہے تو پھر اس کا کرایہ پر لینا اور دیناصحیح ہے۔

سوال:   کسی انسان نے کوئی گھر یا جگہ کرایہ پر لی اور مالک نے اس پر شرط لگادی کہ یہ اس کے رہنے کے لئے یا اس کے کام کرنے کے لئے اجارہ پر دی جارہی ہے۔نہ کہ کسی دوسرے کو ایسی صورت میں کیا کرایہ دار کا حق ہے کہ وہ کسی دوسرے کوکرایہ پر دے؟

جواب:   نہیں اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔

سوال:   اوراگرمالک (کرایہ دینے والا )یہ شرط نہ لگائے تو؟

جواب:   تو پھر کرایہ دار دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے ،مگر اس شرط کے ساتھ کہ جتنے کرایہ پر لیا ہے اس سے زیادہ قیمت پر نہ دے ،مگر یہ کہ اس کی مرمت یا رنگائی یا تعمیر یا کسی دوسری چیز میں اگرخرچ کیا ہو تو پھر کرایہ سے زیادہ پر دے سکتا ہے ۔یہ گھر ،کشتی اور دوکان کے سلسلہ میں تھا،اور اسی طرح ان کے علاوہ دوسری چیزوں کا بھی یہی حکم ہے ،کہ جن کو کرایہ پر دیا جاتا ہے جیسے کھیتی کی زمین وغیرہ ۔

میرے والد نے یہ فرما کر مزید فرمایا:

جب تک کرایہ کی مدت معین نہ کرے تو کرایہ پر دیناصحیح نہیں ہے جو کرایہ پر گھردے رہا ہے وہ اس کی مدت کرے اور جو کرایہ پرلے رہا ہے اس پرواجب ہے کہ وہ اس کی مدت معین کرے۔

سوال:   ذرا مجھے مثال سے سمجھایئے کہ جس کی مدت معین نہ ہوتو کیا ا س کو کرایہ پر دیناصحیح نہیں ہے؟

جواب:   اگرمالک مکا ن کرایہ دار سے کہے کہ میں تجھ کو اپنا یہ گھر ہر مہینہ سو دینار پر دیتا ہوں جب تک تو رہے ۔میں  پس ایسی صورت میں اجارہ صحیح نہیں ہے۔اور اسی طرح مالک کرایہ دار سے کہے کہ میں اپنی یہ جگہ فقط اس مہینہ پچاس دینار پر دیتا ہوں اورا س کے بعد جب تک تورہے ۔اس حساب پر دیتا ہوں ،اجارہ (کرایہ )فقط پہلے مہینہ کی نسبت صحیح ہے اس کے علاوہ باطل ہے یہ معاملہ کرایہ کے عنوان سے تھا اور ان صورتوں کا علاج دوسرے عناوین سے کرنا ممکن ہے مگریہاں ان صورتوں کے بیان کرنے کا مقام نہیں ہے۔

سوال:   جب مالک اپنے گھر یا جگہ کو کرایہ دار کے حوالے کردے تو؟

جواب:   کرایہ دار پر اجرت کا دینا واجب ہے۔

سوال:   جب کرایہ کی مد ت میں گھر گر جا ئے اور وہ کرایہ دار کے قبضہ میں ہو تو ؟     

جواب:   اگر کرایہ دار نے اس کی حفاظت میں کسی قسم کی کو تا ہی نہ کی ہو اور اس کے گر نے کاسبب کر ایہ دار کی لا پر واہی نہ ہو تو پھر کرا یہ دار ذمہ دار نہیں ہوگا۔ 

سوال:   اگر کسی انسان نے اپنی گاڑی کسی کرایہ دار کو کر ایہ پر دی ہو تو ؟

جواب:   کام کی نو عیت معین کرنا وا جب ہے کہ کیا اس گاڑی کو سواری کے وا سطے یا ہر دو کا م کے لئے اس کو کرایہ پر لیا گیا ہے اور اس طرح باقی تمام چیزوں میں اس کی منفعت کی نو عیت معین ہو نی چا ہئے۔

سوال:   اور جب اس گاڑی کو ایسے جا نور کا گو شت لے جا نے کے لئے کرایہ پر لیا گیا ہو کہ جو غیر شر عی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تا کہ جو اس کو حلا ل سمجھتے ہیں ان کو بیچا جائے ؟

جواب:   میں نے آپ کو پہلے بتا یا کہ شراب بیچنے کے لئے جگہ کو کر ایہ پر دینا صحیح نہیں ہے یہ بھی اس طر ح ہے لہٰذا ایسے کا موں کے لئے کرایہ پر دنیا صحیح نہیں ہے ۔

سوال:   اگر کسی ما لک نے کسی کو و کیل بنایا کہ وہ کچھ لو گوں کو کا م کرنے کے لئے معین مزدوری پر لا ئے و کیل نے ان کو اس سے کم مزدو ری پر طے کیا کہ جتنی مالک نے معین کی تھی ؟

جواب:   وکیل پر زیادہ اجرت لینا حرام ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ مالک کو واپس دے۔

سوال:   اگر مالک کسی کو اپنے گھر کو رنگ کر نے پر مقرر کرے اور رنگ کی نو عیت اور (کو نسی قسم کا رنگ کرنا ہے ) معین کرے ،اور رنگ ریز نے کسی دوسرے رنگ سے گھر کو رنگا تو کیا حکم ہے ؟

جواب:   رنگ ریز اپنی اجرت کا قطعاً مستحق نہیں ہے ۔

سوال:   میں آپ سے پگڑی کے بارے میں سوال کرنا چا ہتا ہوں ؟

جواب:   پگڑی کی مختلف قسمیں ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب مالک اور کرایہ دار اس بات پر اجارہ کے عقد کے ضمن میں متفق ہو جائیں کہ مالک ایک معین مبلغ کر ایہ دار سے لے لے اور اجارہ کی مدت ختم ہو نے کے بعد کرایہ دار کو اس جگہ سے استفادہ کرنے کا حق دے اس سالانہ معین مبلغ کے مقابلے میں ،یا ہر سال اس جگہ کے لئے سالا نہ متعارف اجرت کے مقابلہ میں حق تصرف کرایہ دار کو دے ،پس جب اس پر دونوں متفق ہو جا ئیں تو پھر کرایہ دار کو حق حاصل ہے کہ وہ کرایہ کی مدت کے اندر وہ جگہ اس کے پاس باقی رہے اور جس مبلغ پر اتفاق ہوا ہے اتنی رقم ما لک کو دیدے اس بنا پر اس کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی تیسرے شخص کو وہ جگہ حوالے کرکے اس کو خالی کردے ،اور اس کے مقابلہ میں ایک طے شدہ رقم اس جگہ کی حیثیت کے مطابق لے لے ، ان دونوں صورتوں میں مالک کی اجازت اوراس کی رضا شرط نہیں ہے کیو نکہ مالک اور مستاجر میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اجارہ کی مدت ختم ہو نے کے بعد کرایہ دار کو حق تصرف اس جگہ پر رہے گا۔

سوال:   اگر ایک انسان کسی انسان کو کسی دوسرے عوض کے بغیر کسی چیز کو ہد یہ دے تو کیا شر یعت اسلامی کی نظر میں اس بارے میں کچھ شرائط ہیں ؟

جواب:   ہاں ہد یہ دینے والا عقل ،بلو غ ، قصد اور ہدیہ کو اپنے اختیار سے دے اس سے اس پر مجبو ر نہ کیا گیا ہو ، معتبر سمجھا گیا ہے کہ وہ اپنے مال پر حق تصر ف رکھتا ہو ،ایسی صورت میں اس کا ہد یہ یا ہبہ صحیح ہے ، ہبہ ایک عقد ہے ، اس میں ایجاب و قبول کی ضرورت ہے ، ان دو نوں میں ہر وہ چیز جو قول و فعل میں اس ایجاب و قبول پر دلالت کرے کافی ہے اور اسی طرح یہ قبضہ بھی چا ہتا ہے یعنی جس کو یہ چیز ہبہ کی گئی ہے وہ اس کو لے لے ۔

سوال:   اگر مو ہوب لہ (یعنی جس کو ہد یہ کیا گیا ہے ) اس چیز کو وا ہب (ہبہ کرنے والے ) سے نہ لے تو کیا حکم ہے ؟

جواب:   وہ اپنے مالک اول کی مالکیت پر با قی رہے گی یہاں تک کہ زند گی میں مو ہوب لہ کے سپرد ہو جائے تو وہ اس کی ملکیت میں منتقل ہو جا ئے  گی ۔

سوال:   اگر گھر ہد یہ میں دیا گیا ہو تو اس کو قبضہ میں کس طرح لینا ممکن ہے ؟

جواب:   جب ہد یہ دینے والا اپنا ہاتھ اس سے اٹھا لے اور اس کو خالی کرکے مو ہوب لہ کے زیر تسلط دیدے تو یہ ہی کا مل قبضہ میں دینا اور حوالے کرنا ہے اور یہ ہد یہ او ر ہبہ صحیح ہے ۔

سوال:   اگر ہبہ کے قبضہ یا حوالہ کرنے سے پہلے واہب یا مو ہوب لہ دو نوں میں سے کو ئی ایک مر جا ئے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب:   ہدیہ اور ہبہ ہو جا ئے گا اور ہبہ کی ہو ئی چیز ہبہ کرنے والے کے وارثوں کی طرف منتقل ہو جائے گی ۔

سوال :  کبھی انسان کو ایسی ضرورت کی چیز یا گمشدہ مال ملتا ہے کہ اس کے مالک کو وہ نہیں پہچا نتا پس وہ اس کو اٹھا لیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب:   اس کے بارے میں مختلف حالات ہیں:        

۱۔         کبھی چیز کا اٹھا نے والا اس ملے ہو ئے مال میں کو ئی علا مت نہیں پاتا یعنی کو ئی ایسی چیز کہ جس کے ذریعے اس کے مالک کا پتہ ملے اور پھر وہ چیز اس وسیلہ سے اس تک پہنچا دی جائے ایسی حالت میں اٹھا نے والے کے لئے جا ئز ہے کہ وہ اپنے لئے اٹھا لے۔

۲۔         یا اس پڑے ہو ئے مال میں علامت پا تا ہے اور اس کی قیمت ایک در ہم شر عی سے کم ہے ۔ یعنی سا ڑھے ۱۲چنے سے کم (یہ در ہم چا ندی کا اور سکہ دار ہو )صورت میں اٹھا نے والے پر اس کے مالک کے بارے میں تحقیق اور جستجو لازم نہیں ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کو اپنے لئے لے لے بلکہ کسی فقیر کو صدقہ دے دے ۔

۳۔         یا پڑے ہو ئے مال میں کو ئی علا مت ہو اور اس کی قیمت ایک درہم یااس سے  زیادہ ہو ایسی صورت میں اٹھا نے والے پر واجب ہے کہ وہ مالک کی ایک سا ل تک تلاش و جستجو کرے اور واجب ہے کہ اس کے مالک کو عام لو گوں کے اجتما ع کی جگہوں پر تلا ش کرے جیسے بازار اور عام اٹھنے بیٹھنے کی مجالس و غیرہ میں اس تو قع کے سا تھ کہ اس کا ملک وہاں مل جا ئے گا ۔

سوال:   جب مالک کا کو ئی پتہ نہ ملے تو ؟

جواب:   جب مالک نہ ملے اور یہ پڑی ہو ئی چیز خا نہ کعبہ (حرم مکہ)میں ملی ہو تو اس کو اس کے مالک کی طر ف سے تصدق کردے اور اگر کسی دوسری جگہ ملی ہے تو اٹھا نے والاان اوامر میں سے کسی ایک امر کا مختارہے ،یا اس کی جو منفعت ہو گی وہ اس کا حق ہے یا پھراس چیز کو مالک کی طرف سے تصد ق کردے (کسی بھی حال میں وہ اس چیز کا مالک نہیں ہو سکتا )

سوال:   اگر پڑی ہو ئی چیز نقد رقم ہو تو ؟

جواب:   اگر مالک کاپہچا ننا ممکن ہو بعض خصوصیات کی بنا پر جیسے اس رقم کی تعداد یا کسی ایسے خاص زمانہ یا جگہ میں ملی ہو کہ جو مالک کاپتہ دیتی ہو تو اس کا ڈھو نڈنا واجب ہے ۔

سوال:   کو ئی دعو یٰ کرے کہ وہ اس کا مالک ہے ؟

جواب:   اگر اس کی سچائی کو جا نتا ہے تو اس کو دینا واجب ہے اور جب وہ اس رقم کی کچھ صفت بیان کرے اور وہ صفت حقیقت سے مطا بقت رکھتی ہو تو اس کی سچائی کا اطمینا ن ہو جا تا ہے تو ایسی صورت میں بھی اس کو دینا واجب ہے۔

سوال:   آپ نے جو اطمینان کے سلسلہ میں فرمایا اگر اس کے سچا ہو نے کا اطمینان حاصل نہ ہو بلکہ ظن حاصل ہو تو ؟

جواب:   ظن کا حاصل ہو نا کافی نہیں ہے ۔

سوال :  یہ حکم ایسے پڑے ہو ئے مال میں تھا کہ جس کا مالک معلو م نہ تھا لیکن اگر کو ئی انسان کسی دوسرے انسان کے اموال ،ضروری سامان اور دوسری چیزوں کو طاقت کے بل بو تے پر ظلم اور بر بریت کے طور پر غصب کرلے تو ؟       

جواب:   کسی کے مال کو غصب کرنا گنا ہان کبیرہ میں سے ہے ،اور غاصب قیامت کے دن طرح طرح کے شدید عذاب کا مستحق ہوگا۔

  نبی پاک سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :

  ”من غصب شبر امن الا رض طوقہ اللہ من سبع ار ضین یوم القیامۃ“

”جو کو ئی ایک با لشت زمین کو غصب کرے ، خدا وند کر یم قیامت کے دن سا توں زمینوں کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالے گا۔“

اور غاصب پر واجب ہے کہ غصب کی ہو ئی چیز کو اس کے مالک کو لو ٹا دے چا ہے وہ گھر ہو یا نقد رقم ہو یا کو ئی اور چیز ہو ۔      سوال: جب غاصب غصبی گھر کو اس کے مالک کو واپس کردے تو کیا غاصب اپنے ذمہ سے بری ہو جا ئے گا؟

جواب:   نہیں بلکہ وہ گھر کا کرایہ بھی اس کو دے گا جتنی مد ت اس میں رہا ہے اور یہ کر ایہ جتنا عام طور پر ہو تا ہے ۔وہ اسے دے دے۔

سوال:   اگر غاصب نے اس میں رہائش بھی نہ کی ہو تب بھی وہ کرایہ دے گا ؟

جواب:   ہاں اس کا کرایہ دے گا چا ہے وہ اس میں اس مد ت میں نہ بھی رہا ہو اس لئے کہ اتنی مد ت میں اس کی منفعت مالک کو حا صل نہیں ہو ئی پس گو یا وہ منفعت فوت ہو گئی ،اس منفعت کا غاصب ضامن ہے ۔

سوال :  اگر انسان کسی زمین کو غصب کرکے اس میں پودے لگا ئے اور اس میں کھیتی کر لے تو ۔

جواب:   غاصب فو راً زمین سے پودے اور کھیتی کو ختم کر دے اور جتنی مدت درخت او رزراعت اس میں رہی ہے اس کا کر ایہ ادا کرے ،کیو نکہ اتنی مدت تک زمین پر قابض رہا ہے ، بلکہ اگر اس کھیتی اور پودوں کے اکھا ڑنے کی بنا پر زمین میں خرابی واقع ہو گئی کہ جس کی بنا پر زمین کی قیمت میں نقص آگیا ہو تو وہ ٹھیک کر ائے ، یہ اس وقت ہے جب کہ مالک ان پودوں یا کھیتی کے باقی رکھنے پر مفت یا اجرت پر راضی نہ ہو ، اور اگر راضی ہو توپھر غاصب پر ان کا اکھاڑنا واجب نہیں ہے ،بلکہ جائز ہے کہ ان کو باقی رکھے اور مالک کو جس طرح ہو سکے راضی کرے ۔

سوال:   اور جب غصب شدہ چیز تلف ہو جا ئے ؟

جواب:   تو غاصب پر واجب ہے کہ اس کی قیمت مالک کو لو ٹائے اور اس چیز کے فو ت شدہ منا فع کی قیمت بھی ادا کرے ۔

سوال:   غاصب اس کا کس طرح عوض لو ٹا ئے گا ؟

جواب:   غصب شدہ چیزوں کی دو قسمیں ہیں :

۱     قیمی۔

  وہ ہے کہ جن چیزوں کی خصو صیات اور صفات ان کے ہم مثل نہ ہوں ، بلکہ وہ خصو صیات اور صفات رغبتوں کے اعتبار سے بد لتے رہتے ہیں۔جیسے گائے ،بھیڑ،بکری وغیرہ یہ وہ نو ع ہے کہ غاصب پر لازم ہے کہ ان کی قیمت کو جو تلف والے دن تھی واپس کرے ۔

۲     مثلی۔

  وہ ہے کہ جس کی تمام خصوصیات اور صفات ان کے ہم مثل میں برابر پا ئے جا تے ہوں ،جیسے گیہوں ،پس غاصب پر لا زم ہے کہ اس جیسی جنس کو واپس کرے ، اس شرط کے ساتھ کہ دی جا نے والی جنس تلف ہو نے والی جنس کی خصوصیات کے ما نند ہو ،پس خراب گیہوں اچھے گیہوں کے مقابلہ میں دینا جائز نہیں ہیں ۔

سوال:   اور جب آپ کسی مال کو غاصب اول سے لے کر غصب کر لیں ، پھر وہ مال آپ سے تلف ہو جائے ؟

جواب:   ما لک کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی سے بھی مثل یا قیمت یا اپنے مال کا بدل طلب کرے ، چا ہے پہلے غاصب سے یا دوسرے غاصب سے ، لیکن اگر مالک غاصب اول سے مطالبہ کرے تو پہلے غاصب کو دو سرے غاصب سے مطالبہ کرنا چا ہئے ۔

سوال:   جب مالک کو معلوم ہو جائے کہ میرا غصب شدہ مال فلاں غاصب کے پاس ہے تو ؟

جواب:   مالک کو حق حاصل ہے کہ وہ غاصب کے ہاٹھ سے کسی بھی صورت سے (چا ہے قوت کے ذریعہ ) اس کو لے لے ، میرے والد نے یہ فرماکر مزید فرمایا:

اور جب مالک کو غاصب کا مال ہاتھ لگ جائے تو مالک کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کو غصب شدہ مال کے بد لے لے جب کہ وہ قیمت میں غصب شدہ مال کے مساوی ہو ۔

سوال:   اور جب غاصب کا مال غصب شدہ مال کی قیمت سے زیادہ ہو تو ؟ 

جواب:   غصب شدہ مال کا مالک اس غاصب کے مال سے اتنا لے لے کہ اس کی قیمت غصب شدہ مال کے برابر ہو کہ جو اس کا حق ہے ۔

سوال:   آج کی گفتگو کے اختتام پر میں آپ سے خصوصی سوال کرنا چا ہتا ہوں ؟

جواب :  کہیئے۔

سوال :  میں نے کئی با ر آپ کو صدقہ دیتے ہو ئے دیکھا ہے ؟

جواب:   ہاں لیکن تم نے کس طرح مجھے صد قہ دیتے ہو ئے دیکھا حالا نکہ میں اس طرح صدقہ دیتا ہوں کہ کو ئی مجھے نہ دیکھے یہ مستحب صد قہ ،جب تم اس کو پوشیدہ دو گے تو یہ اس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے کہ تم لو گوں کے سامنے اس کو دو۔  آپ کے چو تھے امام زین العابدین علیہ السلام اس بارے میں فرمایتے ہیں :۔

”صدقۃ السر تطفئی غضب الرب“

  ”پو شیدہ صدقہ دینا پر و ر دگار کے غضب کودور کر دیتا ہے “

سوال:     صد قہ میں کیا چیز معتبر ہے ؟

جواب:   صد قہ میں قر بۃً الی اللہ معتبر ہے ۔

سوال:   کیا اس کا کو ئی و قت معین ہے ؟

جواب:   نہیں ، بلکہ صد قہ صبح کے وقت دینا مستحب ہے اس لئے کہ صبح کے وقت صدقہ دینا اس روز کے شر کو دفع کرتا ہے اور اسی طرح رات کے شروع میں صد قہ دینا مستحب ہے کیو نکہ شروع رات میں صدقہ دینا رات کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔

  معلی بن حنیس کہتے ہیں کہ ایک رات امام جعفر صادق علیہ السلام گھر سے باہر نکلے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور آپ کا ارادہ ظلۃ بنی سا عدہ (ایک مقام و محلہ کا نام )کی طر ف جا نے کا تھا ،پس میں بھی آپ کے پیچھے چل دیا ۔ راستہ میں کو ئی چیز آپ کے پاس سے گر گئی تو آپ نے فرمایا

”بسم اللہ اللہم رد علینا “

  پالنے والے اس گری ہو ئی چیز کو ہم کو واپس دے دے ،  

  تو معلیٰ کہتے ہیں میں آگے بڑھا آپ کو سلام کیا۔

  آپ نے فرمایا :

  تم معلیٰ؟

  میں نے کہا:

  ہاں ، میں آپ پر فدا ہو جاؤں ۔

  تو آپ نے مجھ سے فرمایا ذرا اپنا ہاتھ بڑھاؤ اگر تمہیں کوئی چیز ملے تو مجھے دیدو۔

  معلیٰ کہتے ہیں وہ روٹی کا ٹکڑا تھا جب میں نے اٹھا کر آپ کو دیا آپ نے اس کو رو ٹی کی تھیلی میں رکھا، جب میں نے روٹی کی تھیلی کودیکھا تو میں نے کہا آپ پر فدا ہو جاؤں کیا اس کو آپ سے لے کر میں اٹھا لوں ؟

تو آپ نے فرمایا :

میں اس کا تم سے بہتر حق دار ہوں ، لیکن تم میرے سا تھ آؤ ،

معلیٰ کہتے ہیں :

ہم ظلۃ بنی سا عدہ آئے تو وہاں ہم نے کچھ لو گوں کو دیکھا کہ وہ سورہے تھے ،تو آپ نے ایک ایک روٹی ان کے کپڑوں کے نیچے رکھ دی ،یہاں تک کہ آخری شخص کے پاس پہنچ گئے پھر ہم پلٹے تو میں نے عرض کیا:

آپ پر قر بان ہو جاؤں کیا یہ لو گ بات جا نتے ہیں (یعنی جا نتے ہیں کہ ) آپ روٹیاں دے کر جا تے ہیں؟

آپ نے ارشاد فرمایا:

”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جب پیدا کیا تو اس کا ایک خزانہ بنایا،اور وہ شئ  اس کے مخزن میں ہے سوائے صدقہ کے ،کہ اس کو خود بغیر خزانہ کے پیدا کیا۔

اور میرے والد جب بھی صدقہ دیتے تھے تو اس کو سا ئل کے ہاتھ پر رکھ کر اٹھا لیتے ،پھر اس کو بو سہ دیتے اور سو نگھتے پھر سائل کو دید یتے کیو نکہ صد قہ سا ئل کے ہا تھ میں پہنچنے سے پہلے اللہ کے ہا تھ میں پہنچتا ہے “

 سوال : میں اس قصہ سے سمجھ گیا کہ صد قہ ایک عظیم فضیلت رکھتا ہے ؟

جواب:   ہاں متو اتر اخبارات واحا دیث میں صد قہ کے لئے تر غیب دلا ئی گئی ہے ،پس وارد ہو ا ہے کہ صد قہ مریض کی دوا ہے، اس سے بلا دور ہو تی ہے،اور کا موں کی درستگی ہو تی ہے ۔صد قہ کے ذریعہ نزول رزق اور اس کے ذر یعہ قر ض کی ادا ئیگی اور مال میں زیادتی ہو تی ہے ۔ اور وہ بری مو ت اور بری بیماری سے رو کتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں تک کہ برائیوں کے ستر دروازوں کو بند کرتا ہے ، لیکن صد قہ کی اس فضیلت کے بر خلاف اپنے اہل و عیال کی زندگی کو وسعت بخشنا ، غیروں کو صد قہ دینے سے افضل ہے ، اس طرح اپنے قریبی محتاج رشتہ دار کو صدقہ دینا ہے۔

 سوال : نسبی رشتہ دار ؟

جواب :  ہاں نسبی رشتہ دار اور صد قہ سے افضل قر ض دینا ہے ، ہاں جیسا کہ پہلے ایک روایت کو بیان کیا جا چکا ہے کہ صد قہ سے افضل قرض دینا ہے ۔

 

index