درحقیقت غدیر کا دن آل محمد علیھم السلام کےلئے عید اور جشن منا نے کا دن ھے اسی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام کی جا نب سے خاص طور پر اس دن جشن و سرور کا اظھار اور عید منا نے پر زور دیا گیا ھے
عمر کی بزم میں موجود ایک یهودی شخص نے کھاتھا :
اگر (غدیر کے دن نازل هو نے والی)یہ آیت <اَلْیَوْ مَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔>ھماری امت میں نا زل هو تی تو ھم اس دن عید منا تے ![1]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ما تے ھیں :بنی اسرائیل کے انبیاء جس دن اپنا جانشین معین فر ما تے تھے اس دن کو عید کا دن قرار دیتے تھے ۔”عید غدیر “بھی وہ دن ھے جس دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جا نشین معین فر ما یا ھے [2]
اس میں کو ئی شک و شبہ ھی نھیں ھے کہ عید غدیر منا نے کا مقصد دشمنوں کے با لمقابل اس تا ریخی دن کی یاد کوشیعہ حضرات کے دل میں باقی رکھنا اور اس کے مطالب کو زندہٴ جا وید رکھنا ھے اورغدیر تشیع کے صفحہ تا ریخ پر ایک بڑی علا مت اور ولایت کی دائمی نشانی ھے ۔
ھم ذیل میں دوسری عیدوں کی نسبت عید غدیر کی فضیلت اور اس کی خاص اھمیت کے سلسلہ میں ائمہ علیھم السلام کی زبانی وارد هو نے والی احادیث نقل کر رھے ھیں :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
روز غدیر خم میری امت کی تمام عیدوں سے افضل دن ھے ۔[3]
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو وصیت فر ما ئی کہ اس دن (غدیر)عید منانا اور فرمایا : انبیاء علیھم السلام بھی ایسا ھی کرتے تھے اور اپنے جا نشینوں کو اس دن عید منا نے کی وصیت کیا کر تے تھے ۔[4]
یہ دن عظیم الشان دن ھے ۔[5]
جس سال عید غدیر جمعہ کے روز آئی تو آپ نے اس دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں بہت زیادہ مطالب عید غدیر کے متعلق بیان فرمائے منجملہ آپ نے یہ فرمایا :
”خداوند عالم نے اس دن تمھارے لئے دو عظیم اور بڑی عیدوں کوجمع کردیا ھے“[6]
خدا وند عالم نے کو ئی پیغمبر نھیں بھیجا مگر یہ کہ اس پیغمبر نے اس دن عید منا ئی اور اس کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا [7]
عید غدیر ”عید اللہ اکبر ھے “یعنی خدا وند عالم کی سب سے بڑی عید ھے۔[8]
عید غدیر خم :عید فطر ،عید قربان ،روز جمعہ اور عرفہ کے دن سے افضل ھے اور خدا وند عالم کے نزدیک اس کا بہت بڑا مقام ھے ۔[9]
غدیر کا دن بزرگ اور عظیم دن ھے یہ دن عید اور خوشی و سرور کا دن ھے۔[10]
روز غدیر وہ دن ھے جس کو خداوند عالم نے ھمارے شیعوں اور محبوں کےلئے عید قرار دیا ھے ۔[11]
شاید تم یہ گمان کرو کہ خدا وند عالم نے روز غدیر سے زیادہ کسی دن کو محترم قرار دیا ھے !نھیںخدا کی قسم نھیں ،خداکی قسم نھیں ،خدا کی قسم نھیں ![12]
قیامت کے دن چار دنوں کو دلہن کی طرح خدا کی بار گاہ میں پیش کیا جا ئیگا :عید فطر ،عید قربان، روز جمعہ اور عید غدیر ۔”غدیر خم کا دن “عید قربان اور عید فطر کے با لمقابل ستاروں کے درمیان چاند کے مانند ھے ۔خدا وند عالم غدیر خم کے موقع پر ملا ئکہ مقربین کو معین کرتا ھے جن کے سر دار جبرئیل امین ھیں انبیاء ومرسلین کو مو کل کر تا ھے جن کے سر دار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں، اوصیاء و منتجبین کو موکل کر تا ھے جن کے سردار امیرالمو منین علیہ السلام ھیں اور اپنے اولیاء کو مو کل کر تا ھے جن کے سردار سلمان و ابوذر و مقداد و عمار ھیں ۔یہ غدیر کی ھمرا ھی کر تے ھیں تا کہ اس کو جنت میں دا خل کریں ۔[13]
یہ دن اھل بیت محمد علیھم السلام کی عید کا دن ھے ۔[14]
جو شخص اس دن عید منائے خداوند عالم اس کے مال میں برکت کرتا ھے۔ [15]
غدیر کے دن آپ (ع) اپنے بعض خاص اصحاب کو افطار کےلئے دعوت دیتے، ان کے گھروں میں عیدی اور تحفے تحائف بھیجتے اور اس دن کے فضائل کے سلسلہ میں خطبہ ارشاد فر ما تے[16]
حضرت امام ھادی علیہ السلام
غدیر کا دن عید کا دن ھے اور اھل بیت علیھم السلام اور ان سے محبت کر نے والوں کے نزدیک عیدوں میں سب سے افضل شمار کیا جاتا ھے ۔[17]
آسمانوں میں عید غدیر متعا رف ھے اور اس دن جشن منا یا جا تا ھے ۔ھم اس سلسلہ میں چار احادیث نقل کر تے ھیں :
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :عید غدیر کو آسمانوں میں ”عھد معهود “کا دن کھا جاتا ھے ۔[18]
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فر مایا :خداوند عالم نے آسمان والوں پر غدیر کے دن ولایت پیش کی توساتویں آسمان والوں نے اس کے قبول کر نے میں دوسروں سے سبقت کی ۔اسی وجہ سے خدا وند عالم نے سا تویں آسمان کو اپنے عرش سے مزین فر مایا ھے ۔
اس کے بعد چو تھے آسمان والوں نے غدیر کو قبول کر نے میں دوسروں سے سبقت لی توخدا وند عالم نے اس کو بیت معمور سے مزین فرمایا۔
اس کے بعد پھلے آسمان والوں نے اس کو قبول کر نے میں دوسروں سے سبقت لی تو خدا وندعالم نے اس کو ستا روں سے مزین فرمایا ۔[19]
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فر مایا :غدیر کا دن وہ دن ھے کہ جس دن خدا وند عالم جبرئیل امین کو بیت معمور کے سامنے اپنی کرامت کی تختی نصب کر نے کا حکم صادر فر ماتا ھے ۔
اس کے بعد جبرئیل اس کے پاس جا تے ھیں اور تمام آسمانوں کے ملا ئکہ وھاں جمع هو کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی مدح و ثنا کر تے ھیں اور امیر المو منین اور ائمہ علیھم السلام اور ان کے شیعوںاوردوستداروں کے لئے استغفار کر تے ھیں ۔[20]
حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے پدر بزرگ امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے وہ اپنے جد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ھیں کہ آپ نے فرمایا :روز غدیر زمین والوں سے زیادہ آسمان والوں میں مشهور ھے۔
خداوند عالم نے جنت میں ایک قصر(محل)خلق فرمایا ھے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ھے ،جس میں ایک لاکھ کمرے سرخ رنگ کے اورایک لاکھ خیمے سبز رنگ کے ھیں اور اسکی خاک مشک وعنبر سے ھے اس محل میں چار نھریں جاری ھیں :ایک نھر شراب کی ھے دوسری پانی کی ھے تیسری دودھ کی ھے اورچوتھی شھدکی ھے ان نھروں کے کناروں پر مختلف قسم کے پھلوں کے درخت ھیں ،ان درختوں پروہ پرندے ھیں جن کے بدن لوٴلوٴ کے ھیں اور ان کے پَر یا قوت کے ھیں اور مختلف آوازوںمیںگاتے ھیں۔
جب غدیر کا دن آتا ھے تو آسمان والے اس قصر (محل )میں آتے ھیں تسبیح و تحلیل و تقدیس کرتے ھیں وہ پرندے بھی اُڑتے ھیں اپنے کو پانی میں ڈبو تے ھیں اس کے بعد مشک و عنبر میں لوٹتے ھیں، جب ملا ئکہ جمع هو تے ھیں تو وہ پرندے دوبارہ اُڑکرملا ئکہ پر مشک و عنبر چھڑکتے ھیں ۔
غدیر کے دن ملا ئکہ ” فاطمہ زھراء علیھا السلام کی نچھاور “[21] ایک دوسرے کو ھدیہ دیتے ھیں ،جب غدیر کے دن کا اختتام هو تا ھے تو ندا آتی ھے :اپنے اپنے درجات و مراتب پر پلٹ جا ؤ کہ تم محمد و علی علیھما السلام کے احترام کی وجہ سے اگلے سال آج کے دن تک ھر طرح کی لغزش اور خطرے سے امان میں رهوگے۔[22]
سال کے دنوں میں سے جو بھی دن غدیرسے مقارن هوا اس دن عالم خلقت اور عالم تکوین وکائنات میں متعدد واقعات رو نما هو ئے ،جس طرح انبیاء علیھم السلام نے بھی اس دن اپنے اھم پروگرام انجام دئے ھیں ۔یہ اس اھمیت کے مد نظر ھے جو حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اس دن کو بخشی ھے اور یہ اس بات کی عکاسی کر تا ھے کہ تاریخ عالم میں اس سے اھم کو ئی واقعہ رو نما نھیں هو ا ھے جس وجہ سے یہ کو شش کی گئی ھے کہ تمام واقعات اس سے مقارن هوں اور اس مبارک دن میں برکت طلب کی جا ئے ۔
۱۔غدیر وہ دن ھے جس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول هو ئی ۔[23]
۲۔غدیرحضرت آدم(ع) کے فرزند اور ان کے وصی حضرت شیث علیہ السلام کا دن ھے۔[24]
۳۔غدیرحضرت ابراھیم علیہ السلام کو آگ سے نجات ملنے کا دن ھے۔ [25]
۴۔غدیر وہ دن جس دن حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے حضرت ھارون علیہ السلام کو اپنا جا نشین معین فرمایا [26]
۵۔غدیرحضرت ادریس علیہ السلام کا دن ھے ۔[27]
۶۔غدیرحضرت مو سیٰ علیہ السلام کے وصی حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کا دن ھے۔[28]
۷۔غدیرکے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شمعون کو اپنا جانشین معین فر مایا ۔[29]
مندرجہ بالابعض موارد میں کچھ ایام مبھم طور پر ذکر هو ئے ھیں اور اس دن کے واقعات بیان نھیں کئے گئے ھیںیہ حدیث کے پیش نظر ھے اور اس سے مردا احتمالاً ان کا مبعوث بہ رسالت هو نا ھے یا ان کے وصی و جانشین منصوب هو نے کا دن ھے ۔
جس طرح غدیر کے دن ”ولایت “تمام انسانوں کے لئے پیش کی گئی اسی طرح عالم خلقت میں تمام مخلوقات پر بھی پیش کی گئی ھے ۔حضرت امام رضا علیہ السلام ایک حدیث میں غدیر کے روز ان امور کے واقع هو نے کی طرف اشارہ فر ماتے ھیں :[30]
ولایت کا اھل آسمان کے لئے پیش هونا ،ساتویں آسمان والوں کا اسے قبول کر نے میںسبقت کرنا اور اس کے ذریعہ عرش الٰھی کا مزین هونا۔
ساتویں آسمان والوں کے بعد چوتھے آسمان والوں کا ولایت قبول کرنا اور اس کابیت المعمور سے سجایا جانا۔
چوتھے آسمان کے بعد پھلے آسمان والوں کا ولایت قبول کرنااور اس کاستاروں سے سجایاجانا۔
زمین کے بقعوں پر ولایت کا پیش کیا جانا اس کو قبول کر نے کےلئے مکہ کا سبقت کرنا اور اس کو کعبہ سے زینت دینا ۔
مکہ کے بعد مدینہ کا ولایت قبول کرنا اور اس (مدینہ )کو پیغمبر اکرم (ص) کے وجود مبارک سے مزیّن کرنا
مدینہ کے بعد کوفہ کا ولایت قبول کرنا اور اس کو امیر المومنین علیہ السلام کے وجود مبارک سے مزین کرنا ۔
پھاڑوں پر ولایت پیش کر نا ،سب سے پھلے تین پھاڑ :عقیق ،فیرورہ اور یا قوت کا ولایت قبول کر نا ، اسی لئے یہ تمام جواھرات سے افضل ھیں ۔
عقیق، فیروزہ اور یا قوت کے بعد سونے اور چاندی کی(معدن ) کان کا ولایت قبول کر نا۔
اور جن پھا ڑوں نے ولایت قبول نھیں کی ان پر کو ئی چیز نھیں اگتی ھے ۔
پانی پر ولایت پیش کرنا جس پانی نے وولایت قبول کی وہ میٹھا اور گوارا ھے اور جس نے قبول نھیں کی وہ تلخ(کڑوا)اور کھارا(نمکین) ھے ۔
نباتات پر ولایت پیش کر نا جس نے قبول کی وہ میٹھا اور خوش مزہ ھے اور جس نے قبول نھیں کی وہ تلخ ھے ۔
پرندوں پر ولایت پیش کرنا جس نے قبول کیا اس کی آواز بہت اچھی اور وہ فصیح بولتا ھے اور جس نے قبول نھیں کی وہ اَلْکَن( اس کی زبان میں لکنت ھے ،ھکلا ھے )ھے ۔
خداوند عالم کے الطاف میں سے ایک لطف عظیم ھے کہ عثمان ۱۸/ذی الحجہ کو قتل هوا اور لوگوں نے خلافت غصب هو نے کے ۲۳سال بعد حضرت علی علیہ السلام کے ھا تھوں پر بیعت کی اور دوسری مرتبہ آپ کی ظاھری خلافت روز غدیر سے مقارن هوئی ھے ۔[31]
ھر قوم و ملت کی عیدیں ان کے شعائر کو زندہ کرنے ،تجدید عھد اور ان کے سرنوشت ساز اور اھم دنوں کی یاد تازہ کرنے کےلئے منائی جاتی ھیں ۔”غدیر “کے دن عید منانا اسی حجة الوداع والے سال اور اسی غدیر کے بیابان میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ کے تمام هونے کے بعدسے ھی شروع هوگیاتھاغدیر خم میں تین روز توقف کے دوران رسمیں انجام دی گئیں اور آنحضرت(ص) نے شخصی طور پرلوگوں سے خود کو مبارکباد دینے کے لئے کھا :”ھَنِّؤْنِیْ ،ھَنِّئُوْنِیْ“”مجھ کو مبارکباد دو ،مجھ کو مبارکباد دو“ اس طرح کے الفاظ آپ نے کسی بھی فتح کے موقع پر اپنی زبان اقدس پر جاری نھیں فر ما ئے تھے ۔
سب سے پھلے لوگوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المو منین علیہ السلام کو مبارکباد دی اور اسی مناسبت سے اس دن اشعار بھی پڑھے گئے ۔
یہ سنتِ حسنہ تاریخ کے نشیب و فراز میں اسی طرح بر قرار رھی اور عام و خاص تمام اھل اسلام میں ایک مستمر اور موٴکد سیرت کے عنوان سے جاری وساری رھی ھے اور آج تک ھرگز ترک نھیں هوئی ھے ۔[32]
اس عید کوشیعہ معا شروں میں معصومین علیھم السلام کی روایات کی اتباع کر تے هوئے عید فطر اور عید قربان سے زیادہ اھم سمجھا جاتا ھے اور بہت زیادہ جشن منا یا جاتا ھے ۔
ھر قوم عید مناتے وقت اپنی ثقافت و عقیدت کا اظھار کرتی ھے لہٰذا مذھب اھل بیت علیھم السلام میں بھی غدیر کے دن عید منا نے میں مختلف امور پھلووںکو مد نظر رکھا گیا ھے جن کی رعایت کر نے سے دنیا کے سامنے اھل تشیع کی فکری کیفیت کا تعارف هو تا ھے ھم ان موارد کو روایات کی روشنی میں ذکر کرینگے۔
عید غدیر کی مناسبت سے انجام دئے جا نے والے رسم و رسومات جن کو ھم بیان کریں گے صرف ان میں منحصر نھیں ھیںلسکن جشن وسرور کااظھار کرنے کے لئے تین بنیادی چیزوں کومد نظر رکھناضروری ھے :
۱۔جشن و سرور کے پروگرام عید سے مناسبت رکھتے هوں ،صاحب عید یعنی حضرت علی علیہ السلام کے مقام و منزلت کے مناسب هوں ،تمام پروگراموں میں مذھبی رنگ مد نظر هو اور عام طور سے شادی بیاہ اور ولیمہ وغیرہ کے جشن سے بالکل جدا هو نا چا ہئے ۔
۲۔جو کام شرع مقدس کے منافی ھیں (چا ھے وہ حرام هوں اورچا ھے مکروہ )وہ اس جشن میں مخلوط نھیں هو نے چا ہئیں ۔جو چیزیں ائمہ علیھم السلام کے دلوں کو رنجیدہ کر تی ھیں اور ھر انسان اپنے ضمیرسے ان کو سمجھتا ھے یہ چیزیں نھیں هونی چا ہئیں ،یہ سب باتیں تمام جشن و سرورخاص طور سے اس طرح کے جشن میں نھیں هو نی چا ہئیں ۔
۳۔جو مطالب روایات سے اخذ کئے گئے ھیں حتی الامکان ان کو غدیر کی رسم و رسومات میں جاری کرنے کی کو شش کرنی چا ہئے ھم انھیں ذیل میں ذکر کر رھے ھیں:
اھل بیت علیھم السلام سے مروی احادیث میں تمام عیدوں کےلئے عام رسم و رسومات اور پروگرام وارد هوئے ھیں جو دعا وٴں کی کتابوں میں مذ کورھیں ۔ان کے قطع نظر ائمہ علیھم السلام سے عیدغدیر اور جشن غدیر کےلئے مخصوص قوانین وارد هو ئے ھیں جن کو ھم دو حصوں میں بیان کر تے ھیں :
۱۔اجتماعی امور ۔
۲۔عبادی امور ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام فر ما تے ھیں :اس دن ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور ایک دوسرے سے ملاقات کر تے وقت خو شی کا اظھار کر یں ۔[33]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ما تے ھیں :عید غدیر وہ دن ھے کہ جس دن خداوند عالم نے تم پر نعمت ولایت نازل کر کے احسان کیا لہٰذا اس کاشکر اور اس کی حمد وثنا کرو “[34]حضرت امام رضا (ع) کا فرمان ھے : یہ دن مو منین کے مسکرانے کا دن ھے ،جو شخص بھی اس دن اپنے مو من بھا ئی کے سامنے مسکرا ئے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس پر رحمت کی نظرکرےگااس کی ہزار حاجتیں بر لا ئے گا اور جنت میں اس کےلئے سفید مو تیوں کا قصر(محل ) بنائےگا“[35]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ما تے ھیں :جب تم اس دن اپنے مومن بھائی سے ملاقات کرو تو یہ کهو :
”اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَکْرَمَنَابِھٰذَ الْیَوْمِ وَجَعَلَنَامِنَ الْمُوْمِنِیْنَ وَجَعَلَنَامِنَ الْمُوْفِِیْنَ بِعَھْدِہِ الَّذِیْ عَھِدَہُ اِلَیْنَاوَمِیْثَا قِہِ الَّذِیْ وَاثَقَنَابِہِ مِنْ وِلَایَةِ وُلَاةِ اَمْرِہِ وَالْقُوَّامِ بِقِسْطِہِ وَلَمْ یَجْعَلْنَا مِنَ الْجَاحِدِیْنَ وَالْمُکَذِّبِیْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ “[36]
”تمام تعریفیں اس خد اکےلئے ھیں جس نے اس دن کے ذریعہ ھمیں عزت دی ،ھم کو ان مومنین میں قرار دیا جنھوں نے عھد خدا کی وفاداری کیاور اس پیمان کی پابندی کی جو اس نے اپنے والیان امر اور عدالت قائم کر نے والوں کے سلسلہ میں ھم سے لیا تھااور ھم کو قیامت کا انکار کرنے والوں اور جھٹلانے والوں میں نھیں قرار دیا ھے “
حضرت امام رضا علیہ السلام فرما تے ھیں :اس دن ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرو اورجب اپنے مو من بھائی سے ملاقات کرو تو اس طرح کهو :
”اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَنَامِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَةِ اَمِیْرِالْمُوْمِنِیْنَ علیہ السلام“
”تمام تعریفیں اس خدا کےلئے ھیں جس نے ھمیں امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے متمسک رہنے والوں میں سے قرار دیا ھے “[37]
دوسرے حصہ میں ذکر هوچکا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں لوگوں کو حکم دیا تھاکہ وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو مبارکباد پیش کریں اور آپ فرماتے تھے :ھنِّؤُنِیْ ھَنِّوٴُنِیْ “[38]
جشن منانے کا مطلب یہ ھے کہ کچھ لوگوں کا خوشی ومسرت کے موقع ومناسبت کے لئے جمع هونا۔دوسرے لفظوں میں ”جشن“ کا مطلب کچھ لوگوں کا اجتماعی طورپر عید منانا ھے ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام جس دن عید غدیر جمعہ کے دن آئی تھی آپ نے اس روز جشن منائی ،اس دن اسی مناسبت سے غدیر اور عید منا نے کے سلسلہ میں مفصل مطالب ارشاد فر مائے ،نماز کے بعد آپ (ع) اپنے اصحاب کے ساتھ حضرت امام مجتبیٰ علیہ السلام کے خانہٴ اقدس پر تشریف لے گئے جھاںجشن منایاجارھاتھا اور وھاں پر مفصل پذیرائی هوئی“[39]
حضرت امام رضا علیہ السلام نے ایک مرتبہ غدیر کے دن روزہ رکھا ،افطار کے لئے کچھ افراد کو دعوت دی، ان لوگوں کے سامنے غدیر کے سلسلہ میں مفصل خطبہ ارشافرمایا اور ان کے گھروں میں تحفے تحائف بھیجے تھے “[40]
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے عید غدیر کے سلسلہ میں فر مایا :اس دن ایک دوسرے کے پاس جمع هونا تا کہ خداوند عالم تم سب کے امور کو درست فرمائے “[41]
اشعار پڑھنا بھی غدیر کے جشن منانے سے بہت منا سبت رکھتا ھے جو ایک قسم کی یاد گار ھے اور شعرکی خاص لطافت و حلاوت سے جشن میں چار چاند لگ جا تے ھیں ۔
غدیر کے سب سے پھلے جشن کے موقع پر حسان بن ثابت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے غدیر کی مناسبت سے اشعار کہنا اور پڑھنا اسی مطلب کی تا ئید کرتا ھے ۔[42]
حضرت امام رضا علیہ السلام فر ماتے ھیں :یہ دن زینت و آرائش کرنے کا دن ھے ۔جو شخص عید غدیر کےلئے اپنے آپ کومزین کرتا ھے خدا وند عالم اس کے گناہ معاف کر دیتا ھے ملائکہ کو اس کےلئے حسنات لکھنے کی خاطر بھیجتا ھے تا کہ آنے والے سال تک اس کے درجات کو بلند رکھیں ۔[43]
حضرت امام رضا علیہ السلا م نے ایک عید غدیر کے مو قع پر اپنے بعض خاص اصحاب کے گھروں میں نئے کپڑے یھاں تک کہ انگوٹھی اور جوتے وغیرہ بھی بھیجے اور ان کی اور اپنے اطراف کے لوگوں کی ظاھری حالت کوتبدیل کیااوران کے روزانہ کے لباس کو عید کے لباس میں بدل دیا“ [44]
حضرت امیرالمو منین علیہ السلام فرماتے ھیں :اس دن خدا وند عالم کی نعمتوں کو ایک دوسرے کو ھدیہ کے طورپر دو جس طرح خدا وند عالم نے تم پر احسان کیا ھے “[45]
حضرت امام رضا علیہ السلام فر ماتے ھیں :جو شخص اس دن مو منوں کی زیارت کرے اور ان کادیدار کرنے کےلئے جا ئے خدا وند عالم اس کی قبر پر ستّر نور وارد کرتا ھے اس کی قبر کو وسیع کرتا ھے ،ھر دن ستّرہزار ملا ئکہ اس کی قبر کی زیارت کرتے ھیں اور اس کو جنت کی بشارت دیتے ھیں “[46]
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے ایک عید غدیر کے دن فرمایا:جب تم جشن سے اپنے گھر واپس جاوٴ تو اپنے اھل و عیال کے حالات میں بہتری پیدا کرو اور اپنے بھا ئیوں کے ساتھ نیکی کرو ۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرو تاکہ خدا وند عالم تمھاری الفت و محبت برقرار فرمائے ۔[47]
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے فرمایا ھے :اس دن احسان کرنے سے مال میں برکت هوتی اور اضافہ هوتا ھے ۔[48]
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں :جو شخص اس دن اپنے اھل و عیال اور خود پر وسعت دےتا ھے خدا وند عالم اس کے مال کو زیادہ کردیتا ھے۔[49]
عید غدیر کے لئے جو رسم رسومات بیان هو ئی ھیں ان میں سے ایک ”عقد اُخوت “کا پروگرام ھے ،اس کا مطلب یہ ھے کہ دینی برادران ایک اسلامی سنت پر عمل پیرا هوتے هوئے اپنی برادری کو مستحکم کرتے ھیں ،اور ایک دوسرے سے یہ عھد کرتے ھیں کہ قیامت میں بھی ایک دوسرے کویاد رکھیں گے ضمنی طور پر اسلامی بھائی چارے کے حقوق چونکہ بہت زیادہ ھیں لہٰذا ان کی رعایت کےلئے خاص توجہ کیضرورت ھے لہٰذا ان کے ادا نہ کرسکنے کی حلیت طلب کرتے ھیں اور اس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کوحقوق کی ادا ئیگی کی طرف متوجہ کرتے ھیں ۔
صیغہ اخوت پڑھنے کا طریقہ یہ ھے :[50]
اپنے داہنے ھاتھ کو اپنے مو من بھا ئی کے داہنے ھاتھ پر رکھ کر کهو :
”وٰاخَیْتُکَ فِی اللہِ وَصَافَیْتُکَ فِیْ اللہِ وَصَافَحْتُکَ فِیْ اللہِ وَعَاھَدْتُ اللہَ وَمَلَا ئِکَتَہُ وَاَنْبِیَائَہُ وَالْاَ ئِمَّةَ الْمَعْصُوْمِیْنَ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ عَلیٰ اَنّی اِنْ کُنْتُ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّةِ وَالشَّفَاعَةِ وَاُذِنَ لِیْ بِاَنْ اَدْخُلَ الْجَنَّةَ لَااَدْخُلُھَااِلَّاوَاَنْتَ مَعِیْ “
”میں راہِ خدا میں تیرے ساتھ بھائی چارگی اور ایک روئی (اتحاد )سے پیش آوٴنگا اور تیرے ھاتھ میں اپنا ھاتھ دیتا هوں ،میںخدا اس کے ملا ئکہ ،انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے عھد کرتا هوں کہ اگر میں اھل بھشت اور شفاعت کرنے والوں میں سے هوا اور مجھ کو بھشت میں جانے کی اجازت دیدی گئی تو میں اس وقت تک بھشت میں داخل نھیں هونگا جب تک تم میرے ساتھ نہ هوگے “
اس وقت اس کا دینی بھا ئی اس کے جواب میں کہتا ھے :”قَبِلْتُ “”میں نے قبول کیا “اس کے بعد کھے : اَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیْعَ حَقُوْقِ الْاُخُوَّةِ مَاخَلَا الشَّفَاعَةَ وَالدُّعَاءَ وَالزِّیَارَةَ“
”میں نے بھائی چارگی کے اپنے تمام حقوق تجھ سے اٹھا لئے (تجھ کو بخش دئے )سوائے شفاعت ،دعا اور زیارت “
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فر مان ھے :اس دن محمد و آل محمد پر بہت زیادہ صلوات بھیجو اور ان پر ظلم کرنے والوں سے برائت کرو ۔[51]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے :اس دن بہت زیادہ کهو:
”اللَّھُمّ الْعَنْ الْجَاحِدِیْنَ وَالنَّاکِثِیْنَ وَالْمُغَیِّرِیْنَ وَالْمُبْدِلِیْنَ وَالْمُکَذِّبِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ “
”اے خدا قیامت کے دن انکار کرنے والے عھد توڑنے والے ،تغیر وتبدل کرنے والے ،بدلنے(بدعت ایجاد کرنے والے )والے اور جھٹلانے والے چاھے وہ اولین میں سے هوں یا آخرین میں سے سب پر لعنت کر “[52]
حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ھیں :یہ محمد وآل محمدعلیھم السلام پر بہت زیادہ صلوات بھیجنے کا دن ھے ۔[53]
حضرت امیر المو منین (ع) کا فرما ن ھے :اس دن خدا وند عالم کی عطا کردہ اس نعمت ( ولایت ) پر اس کا شکر ادا کرو ۔[54]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے :یہ دن خدا وند عالم کے شکر اور اس کی حمد وثنا کرنے کا دن ھے کہ اس نے تمھارے لئے امر ولایت کو نازل فر مایا ھے ۔[55]
اس دن خدا وند عالم کا شکر ادا کر نے کے طریقہ کے سلسلہ میں مفصل طور پر دعائیں وارد هو ئی ھیں ان میں سے ایک کا مضمون اس طرح ھے :
شکرِ خدا کہ اس نے ھم کو اس دن کی فضیلت سے روشناس کیاھمیں اس کی حرمت سمجھائی،اور اس کی معرفت کے ذریعہ ھمیں شرافت بخشی ھے “[56]
عید غدیر کے دن کی ایک مخصوص رسم یہ ھے کہ اس دن کے صاحب یعنی حضرت امیر المو منین (ع) کی اس بارگاہ مطھر ،حرم کی زیارت کرنا ھے کہ جس کے پاسبان فرشتے ھیں ۔آپ (ع) کی زیارت میں یہ مطلب بھی مد نظر رکھا جا سکتا ھے کہ :چونکہ ھم صحرائے غدیر میں آپ کو مبارکباد پیش کر نے کے لئے حاضر نہ هو سکے لہٰذا اب ھم اس دن(صدیوں بعد) میں آپ کی قبر مطھر کی زیارت کے لئے جا تے ھیں اور ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ امام معصوم ھمیشہ زندہ هو تا ھے اور ھماری آواز سنتا ھے آپ کی مقدس بارگاہ میں تبریک و تہنئت پیش کرتے ھیں اور آپ (ع) سے تجدید بیعت کرتے ھیں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ما تے ھیں :اگر تم عید غدیر کے روز مشھد امیر المومنین (نجف اشرف )علیہ السلام میں هو تو آپ(ع) کی قبر کے نزدیک جاکر نماز اور دعائیں پڑھو ،اور اگر وھاں سے دور دراز شھروں میں هو تو آپ (ع) کی قبر اطھر کی طرف اشارہ کرکے یہ دعا پڑھو۔۔۔[57]
حضرت امام رضا علیہ السلام فر ماتے ھیں :تم کھیں پر بھی هو عید غدیر کے دن خود کو حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی قبر مطھر کے نزدیک پہنچاوٴ اس لئے کہ خداوند عالم اس دن مو منوں کے ساٹھ سال کے گنا هوں کو معاف فرماتا ھے اور ماہ رمضان ،شب قدر اور شب عید فطر کے دو برابر مومنین کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ھے ۔[58]
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے غدیر کے دن سے مخصوص ایک مفصل زیارت پڑھنے کا حکم دیا ھے جو مضمون کے اعتبار سے مکمل طور پر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے مربوط عقائد، فضائل محنتوں اوردرد و الم کو بیان کر تی ھے ۔[59]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں :یہ دن عبادت اور نماز کا دن ھے ۔[60]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ھیں :ظھر سے آدھا گھنٹہ پھلے (خدا وند عالم کے شکر کے عنوان سے )دور کعت نماز پڑھو ۔ھر رکعت میں سوره حمد دس مرتبہ ، سوره توحید دس مر تبہ ، سوره قدر دس مر تبہ اور آیة الکر سی دس مرتبہ پڑھو ۔
اس نماز کے پڑھنے والے کو خدا وند عالم ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرے کا ثواب عطا کرتا ھے اور وہ خدا وند عالم سے جو بھی دنیا اور آخرت کی حاجت طلب کرتا ھے وہ بہت ھی آسانی کے ساتھ بر آ ئیگی۔[61]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے :مسجد غدیر میں نماز پڑھنا مستحب ھے[62] چونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس مقام پر حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو اپنا جا نشین معین فرمایاتھا اور خدا وند عالم نے اس دن حق ظاھر فر مایا تھا۔[63]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے :یہ وہ دن ھے کہ جب حضرت امیر المو منین (ع) نے خدا وند عالم کا شکر بجالانے کی خا طر روزہ رکھا۔[64]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :اس دن روزہ رکھناساٹھ مھینوں کے روزوں کے برابر ھے [65]اور ایک حدیث میں فر مایا ھے :اس دن کا روزہ ساٹھ سال کا کفارہ ھے “[66]
اور ایک اور حدیث میں فرمایا ھے :ساٹھ سال کے روزوں سے افضل ھے “[67]
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ھی فرمان ھے :اس دن کا روزہ سومقبول حج اور سو مقبول عمرے کے برابر ھے ۔[68]
اور یہ بھی آپ ھی کا فرمان ھے :غدیر کے دن کا روزہ دنیا کی عمر کی مقدار روزے رکھنے کے برابر ھے[69] (یعنی اگر انسان دنیا کی عمر کے برابر زندہ رھے اور تمام دن روزہ رکھے تو غدیر کے دن کا روزہ رکھنے والے کو اتنا ھی ثواب دیا جا ئیگا ۔)
عید غدیر کے دن مختصر اور مفصل دعائیں وارد هو ئی ھیں جن کا پڑھنا خداوند عالم ،پیغمبراور ائمہ علیھم السلام سے تجدیدعھد و پیمان کرنا شمار هوتا ھے اور اس کو” تجدید بیعت “بھی کھا جاسکتا ھے ۔
ان دعا وٴں کے مطالب میں شکر گزاری ،ایک شیعہ هونے کے مد نظر ولایت وبرائت کے متعلق اپنے عقائد کا اظھار اور مستقبل کے لئے دعا شامل ھے لیکن ان سب مطالب کا ولایت،برائت اور” عید غدیر کے دن کی مبارکباد“میں خلاصہ کیا جاسکتا ھے ۔ھم ذیل میں غدیر کے دن پڑھی جانے والی بعض دعاوٴں کے مضامین کو نقل کر رھے ھیں: [70]
خدا یا جس طرح میری خلقت کے آغاز (عالم ذر )میں مجھ کو ”ھاں “ کہنے والوں میں قرار دیا، اس کے بعد دوسرا کرم یہ کیا کہ اسی عھد کو غدیر میں تجدید کیا اور میری اماموں تک ھدایت فر ما ئی، خدایا اس نعمت کو کامل فر ما اور قیامت تک اس رحمت کو مجھ سے مت لیناتاکہ میری موت اس حال میں هوکہ تو مجھ سے راضی هو ۔
خدا یا ھم نے منادی ایمان کی ندا پر لبیک کھی ،وہ منادی پیغمبر اسلام(ص) تھے اور آپ کی ندا ولایت تھی ۔
خدایا تیرا شکر کہ تونے ھمیں پیغمبر کے بعد ایسے اماموں کی طرف ھدایت کی جن کے ذریعہ دین کامل هوا اور نعمتیں تمام هو ئیں اور اسی ھدایت کی وجہ سے تو نے ھمارے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔
خدایا ھم پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المو منین علیہ السلام کے تا بع ھیں ھم نے جبت و طاغوت، چاروں بتوں اور ان کی اتباع کرنے والوں کا انکار کیا اور جو شخص ان کو دوست رکھتا ھے ھم اس سے زمانہ کے آغاز سے آخرتک بیزار ھیں اور ھم کو ھمارے ائمہ کے ساتھ محشور فرما ۔
خدایاھم ھر اس شخص سے برائت چا ہتے ھیں جو ان سے جنگ کرے چا ھے وہ اولین میں سے هو یا آخرین میں سے هوانسانوں میں سے هو یا جنوںمیںسے هو ۔
خدا یا ھم امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت ،اتمام نعمت اور ان کی ولایت پر تجدید عھد و پیمان پر تیرا شکر ادا کرتے ھیں اور اس بات پر تیرے شکر گزار ھیں کہ تو نے ھم کو دین میں رد و بدل کرنے والوں اور تحریف کرنے والوں میں نھیں قرار دیا ۔
خدایا اس روز (غدیر )ھماری آنکھوں کو روشن فرما ،ھمارے مابین اتحاد پیدا کر ،اور ھم کو ھدایت کے بعد گمراہ نہ کرنا اور ھم کو نعمت کا شکر ادا کرنے والوں میں قرار دے ۔
خدا کا شکر کہ ھم نے اس دن کو گرامی رکھا اور ھم کو اپنے والیان امر کے سلسلہ میں ان سے وفاداری کے عھد و پیمان پر قائم رکھا ۔
خدایا جس دن کا ھم نے پاس و خیال کیا اس کو ھمارے لئے مبارک فر ما ،اور ھم کو ولایت پر ثابت قدم رکھ ،ھمارے ایمان کو امانت و عا ریہ پر نہ قرار دے اور ھم کو دوزخ کی طرف دعوت دینے والوں سے برائت و بیزاری رکھنے والوں میں سے قرار دے ۔
خدایا ھم کو حضرت مھدی علیہ السلام کی ھمراھی کی توفیق اور ان کے پرچم کے نیچے حاضر هو نے کی توفیق عنایت فر ما ۔
[1] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۸۳۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۱۵،۳۰۳۔
[2] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۷۰۔
[3] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۰۸ ۔
[4] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۱۔
[5] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[6] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۰۸ ۔
[7] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۴۔
[8] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۱۔
[9] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۱۰،۲۱۱،۲۱۲۔
[10] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۱۳۔الیقین صفحہ ۳۷۲باب ۱۳۲۔
[11] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۱۳۔
[12] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۵۔
[13] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۲۔
[14] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۳ ۲۲۔
[15] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۳ ۲۲۔
[16] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۲۱۔
[17] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۶۔
[18] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۴۔
[19] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴۔
[20] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۲۔
[21] حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام کی نچھاور درخت طوبیٰ کے وہ پھل ھیں جو ان کی شب زفاف خدا وند عالم کے امرسے اس درخت سے تمام آسمانوں پر پھینکے گئے اور ملائکہ نے ان کو یاد گار کے طور پر اٹھا لیاتھا ۔بحار الانوار جلد ۴۳صفحہ ۱۰۹۔
[22] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۶۳،عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۱۔
[23] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۲۔
[24] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔۳۔
[25] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۲،۲۲۲۔
[26] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۳۔
[27]عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[28] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۲۔
[29] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۰۹،۲۱۳۔
[30] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۲۴۔
[31] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۹۸،بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ۴۹۳۔
[32] اس سلسلہ میں کتاب” الغدیر “موٴلف علامہ امینی :جلد ۱صفحہ ۲۸۳،اور کتاب ”الغدیر فی الاسلام “موٴ لف شیخ محمد رضا فرج اللہ صفحہ ۲۰۹ ملا حظہ فرمائیں ۔
[33] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۵۔
[34] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۷۰۔
[35] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۳۔
[36] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۵۔
[37] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۳۔
[38] الغدیر جلد۱ صفحہ ۲۷۱،۲۷۴۔اس سلسلہ میں اس کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم ملاحظہ کیجئے ۔
[39] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[40] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۱۔
[41] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[42] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۱۔اس سلسلہ میں دوسرے حصہ کی تیسری قسم ملا حظہ کیجئے ۔
[43] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴۔
[44] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۱۔
[45] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[46] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۴۔
[47] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[48] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[49] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۳۔
[50] مستدرک الوسائل( محدث نوری )چاپ قدیم جلد ۱ صفحہ ۴۵۶باب ۳ ،کتاب زاد الفردوس سے، اسی طرح شیخ نعمة اللہ بن خاتون عاملی سے نقل کیا ھے کہ اس مطلب پرپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نص وارد هو ئی ھے۔ اسی طرح مرحوم فیض کاشانی نے کتاب خلا صة الاذکار باب ۱۰صفحہ ۹۹ پر ”عقد اخوت “کو ذکر کیا ھے ۔
[51] بحا ر الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۷۱۔
[52] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۷۔
[53] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۳۔
[54] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۰۹۔
[55] بحا ر الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۷۰۔
[56] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۵۔
[57] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۲۰۔
[58] مفا تیح الجنان :باب زیارات امیر المو منین علیہ السلام ،زیارت غدیر ۔
[59] بحا ر الانوار جلد ۹۷صفحہ ۳۶۰۔
[60] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۷۰۔
[61] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۵۔
[62] پھلی اورموجودہ ”مسجد غدیر “کے سلسلہ میں دسویں حصہ کی چھٹی قسم ملا حظہ کریں ۔
[63] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۷۳۔
[64] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۳۔
[65] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۲۱۱۔
[66] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۳۔
[67] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۳۔
[68] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۱۔
[69] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۱۱۔
[70] یہ مضامین کتاب ”الاقبال “سید بن طاؤس صفحہ ۴۶۰ سے اخذ کئے گئے ھیں نیزعوالم جلد ۱۵/۳اور صفحہ ۲۱۵۔۲۲۰پر مذ کور ھیں۔