خمس کے سلسلہ گفتگو

back

 

یرے والد نے قرآن مجید کو اپنے سامنے رکھا اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک قسم کا رعب ودبدبہ طاری تھا جب وہ میرے سامنے بیٹھے تو انھوں نے جھک کر قرآن مجید کا بوسہ لیا اور اس کو بہت ہی تعظیم سے اٹھا کر میری طرف بڑھایا میرا پورا جسم کانپ گیا اور جب میرے ہاتھ میں قرآن مجید آ   گیا تو میرے والد نے فرمایا:

کتاب خدا کو کھولو اور میرے سامنے دسویں پارے کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھو،میں نے قرآن مجید کھول کر اور دسواں پارہ نکالا،اعوذباللہ کے بعد اللہ کے کلام سے اس آیت کی تلاوت کی۔

”واعلمو انما غنمتم من شیی فان للہ خمسہ وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیلان کنتم آمنتم  باللہ وما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان واللہ علی کل شیی قدیر“

”اور جان لو کہ جب کسی طرح کی غنیمت تمہارے ہاتھ لگے تو اس کا پانچواں حصہ خدا اوررسول اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں،مسکینوں اور مسافروں کا ہے اگر تم خدا اورجو کچھ اس نے اپنے بندہ پر فیصلہ والے دن کہ جس دن دو گروہ کی مڈبھیڑ ہوئی نازل کیا تھا،ایمان رکھتے ہو اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

میرے والد نے فرمایا ذرا دوبارہ پڑھوں میں نے۔

”واعلمو انما غنمتم من شیی فان للہ خمسہ وللرسول ولذیی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل“

تک پڑھا تو والد نے فرمایا بس کافی ہے پھر اپنے سر کو نیچے جھکا کر آہستہ پڑھنا شروع کیا کہ جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہیں ۔

واعلموانما غنمتم من شیی فان للہ خمسہ

پھر سراٹھا کر گلو گیر آواز میں فرمایا خدا وند عالم فرماتاہے” اعلموا‘کیا تم کو خمس کے واجب ہونے کے متعلق معلوم ہوا؟

میں نے کچھ اطمینان اور اعتماد اور کچھ ہچکچاتے ہوئے عرض کیا،ہاں مجھے معلوم ہوگیا پھروہ اپنی جگہ سے اٹھے اور دوبارہ ایک کتاب کی جلد اٹھا کر مجھے دی جس کا نام” الوسائل‘تھا اس کے پہلے صفحہ کو پڑھا اس کے مولف کانام ”محمد بن الحسن الحر العاملی“تھا اور مجھ سے فرمایا:اس کتاب سے باب خمس نکال کر میرے سامنے پڑھو۔

میں نے باب خمس کو نکالا اور ان کے سامنے نبی ﷺ امام علی علیہ السلام‘امام باقر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام اور امام کاظم علیہ السلام کی خمس کے بارے میں احادیث کو پڑھا اور جب میں نے ان کے سامنے اس حدیث کو پڑھا کہ جس کو عمران بن موسی نامی شخص نے روایت کیا ہے اور کہاکہ جب میں نے امام علی رضا علیہ السلام کے سامنے آیت خمس کو پڑھا تو آپ نے فرمایا جو اللہ کے لئے ہے وہ رسول اللہ کے لئے ہے اور جو رسول کے لئے ہے وہ ہمارے لئے  ہے پھر فرمایا خدا کی قسم اللہ نے مومنین پر کتنا آسان کردیا ہے کہ ان کے رزق میں سے پانچ درہموں میں سے ایک درہم ان کے رب نے خمس کا قراردیا اور باقی چار کا کھانا ان کے واسطے حلال قرار دیا اور یہ حدیث سماعہ نامی ایک راوی سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابا الحسن علیہ السلام سے خمس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر اس چیز میں خمس واجب ہے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں چاہے وہ چیز کم ہو یا زیادہ۔

 اور یہ حدیث محمد بن حسن اشعری سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس تحریر کیا کہ ہم کو خمس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ ان تمام چیزوں میں ہے جن سے کوئی شخص استفادہ کرتا ہے وہ چیز چاہے کم ہوں یا زیادہ،اور تمام صنعتوں کی قسموں پر ،یہ کس طرح ہے؟تو آپ نے اس کا جواب اپنے قلم سے لکھا لا الخمس بعد المئونة خمس سال کے خرچ کے بعد ،اور جب میں اس حدیث کو آخر تک پڑھ چکا تو میں نے اپنے والد سے سوال کیا۔

سوال:        آپ نے نماز کی گفتگو میں مجھ سے فرمایا تھا کہ جس لباس پر خمس واجب ہے اور ادا نہیں کیا گیا تو اس میں نماز نہ پڑھو“اور آپ نے حج کی بحث میں دوبارہ مجھ سے بیان کیا تھا کہ تم اپنے حج کرنے سے پہلے اپنے مال کا خمس وزکوٰۃ دے کرمال کو پاک کرلو اگر خمس وزکوٰة اس پر واجب ہے۔

سوال:         تو کیا مجھ پر اپنے مال کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب:        میرے والدنے فرمایا نیچے بیان ہونے والی چیزوں میں خمس واجب ہے۔

۱                       وہ مال غنیمت جس کومسلمان کفارسے جنگ میں حاصل کرتےہیں۔

۲                 جو چیزیں معادن(کان)سے نکالی جاتی ہیں،مثلاًسونا،چاندی ،تانبا،پیتل،لوہا،گندھک،وغیرہ اوراسی طرح مٹی کا تیل،پتھر کا کوئلہ ان کی صفائی کے بعد بشرطیکہ انکی بازاری قیمت عام طور سے ۱۵مشقال سکہ دار سونے کی قیمت کے برابر پہنچ جائے (تواس پر خمس واجب ہے)

۳      خزانے بشرطیکہ جو چیز خزانے سے نکلی ہے اس کی قیمت۱۵/مثقال سونے یا اس سے زیادہ یا ۱۰۵ مشقال چاندی یا اس سے زیادہ ہو ( اور اس کا حساب اس کے نکالنے کے اخراجات کم کرنے کے بعد کیا جائیگا)

۴      دریا یا بڑی نہروں میں غوط لگانے کے بعد جو موتی ومونگے وغیرہ نکالے جائیں اوراس کی قیمت ایک سونے کے دینار کے برابر(یعنی ایک مثقال سونے کے برابر ہو)

۵      جو حلال مال حرام مال میں مخلوط ہوجائے۔

۷      وہ سالانہ بچت جو کسی تجارت یا صنعت یا ھدیہ یا کھیتی یا کسی محنت ومزدوری وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔۔۔و ۔۔۔

سوال:        میں نے بات کا ٹ کرپوچھا اس کے معنی ہوئے کہ تجارت کے نفع پرخمس دینا واجب ہے؟

جواب:        فقط تجارت کے فائدہ میں ہی خمس دیناواجب نہیں ہے بلکہ ہر وہ منافع جومجھے اور تم کوحاصل ہوتا ہے اس میں بھی خمس واجب ہے۔

سوال:        تاجر کس طرح اپنے منافع کا خمس کے لئے  حساب کرے گا؟

جواب:        وہ اپنی پونجی اور اپنی نقدی کا حساب تجارت شرع کرنے کے ایک سال بعد کرے گا اور اس میں سے پہلے اپنی پونجی جدا کرے گا ۔

دوسرے

اس خرچ کو جدا کرے گا کہ جومنافع کے حاصل کرنے میں صرف ہوا ہو مال لانے،لے جانے، مزدوری،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کاکرایہ وغیرہ۔

تیسرے

اپنا اور اپنے اہل عیال کا سال بھر کا خرچ یعنی  جو کھانے پینے لباس ‘مکان،کرایہ،سامان کا خریدنا اور علاج اوردوسری مختلف ضروریات،اسی میں قرض کی ادائے گی،ہدیہ،واجبات کی ادائے گی،سفر کا خرچ اور دوسری مناسب چیزیں بھی ہیں جو طبعی ہوں اور ان میں اسراف نہ ہو پس ان مذکورہ امور کو جدا کرکے باقی سے بیس (۲۰)فیصدی نکال کر بطور خمس دیا جائے گا

سوال:        مشلاًاگر تاجر سال کے تمام ہونے کا وقت دیکھے کہ اس کے پاس دس ہزار دینارنقد ہیں اور بیس ہزار دینار کا مال موجود ہے،جب کہ سال کے شروع میں اس کا اصل مال پندرہ ہزار دینار تھا اور تجارت کے سلسلہ میں کرایہ بھاڑا،بجلی ‘ٹیلی فون،دکان کا کرایہ وغیرہ میں مبلغ ایک ہزار دینار خرچ ہوا اور سال کے درمیان جو اپنے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ ہوا وہ دس ہزار دینا رہے لہٰذا اصل مال اور تجارت کاخرچ اورسال کااپناخرچ نکالنےکے بعداس کودس ہزار دینارکی بچت ہوئی،اس طرح ۱۰۰۰۰/۲۰۰۰۰/ ۳۰۰۰۰ /اب کہ جس کا خمس واجب ہے،اس کی مقدار دس ہزار دینا رہے اور خمس کی مقدار دوہزار دینار ہوئی ہے کیونکہ دس ہزار کا پانچواں حصہ دوہزار دینار ہوتا ہے، پس اس مبلغ کا دیناواجب ہے ؟

سوال:        کس  تاریخ سے وہ اپنے اس فائدہ کا حساب کرے تاکہ جب بھی سال کا وہ دن آئے تو اس دن خمس دینا واجب ہوجائے؟

جواب:        اگر زندگی گزارنے میں سختی نہ ہو تو خمس کا حساب اپنی تجار ت شروع کرنے کے پہلے دن سے ہی کرے کہ جب بھی سال میں وہ دن آئے تو اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ جدا کیے بغیر جو کچھ سال میں منافع ہوا ہے اس کا خمس دیدے اور اگرزندگی گزارنے میں سختی وتنگی ہوتو پھراپنا سال کا خرچ جدا کرکے حساب کرے۔

 سوال:        میں نے نیا لباس خریدااور ایک سال تمام ہوگیا اور میں نے اس کو پہنا بھی نہیں( تواس کا کیا حکم ہے)؟

جواب:        اس کا خمس دینا چاہئے اور اس طرح جو گھر کا بنیادی سامان ہے اس کا خمس دو،مثلاًہر وہ مال جو تم نے سال کے درمیان گھر کی ضرورت کے لئے  خریدا اور وہ کام میں نہ لایا گیا جیسے چاول، آٹا، گیہوں،جو،چائے،ماش،مسور، تیل،روغن،حلوہ جات،یا مٹی کا تیل‘گیس،وغیرہ ۔

سوال:        اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر وہ مال جو ضرورت سے زیادہ ہے اور وہ کام میں نہ لایا گیا،یا نہ کھایا گیا،نہ پہناگیا،یا ۔۔۔یا اس کا خمس نہ دیا گیا ہو؟۔

جواب:        ہاں پس اگر خمس نکالنے کا دن آجائے اور جو سامان سالانہ گھر کے خرچ سے باقی رہ گیا ہے تو اس کا خمس نکالے یا اسی چیز میں سے یا اس کی قیمت کا اندازہ کرکے اس کا خمس دے۔

سوال:        اس کی قیمت کا اندازہ خمس نکالنے کے دن سے کیا جائے گا یا خرید والے دن سے؟

جواب:        جب خمس کاحساب کیا جائے تو اس دن کی بازاری قیمت سے حساب کیا جائے نہ کہ جس دن وہ چیز خریدی گئی ہے اس کا حساب کرے ۔

سوال:        اگر میں نے کسی چیز کا خمس نہ نکالا تو کیا مجھپر اس کا خمس نکالنا واجب ہے؟

جواب:        اس چیز کا مصرف اس وقت تک جائز نہیں کہ جب تک تم اس کا خمس نہ نکال دو، اور جائز ہے کہ تم حاکم شرع سے اس کی اجازت لو وہ اگر اس میں مصلحت دیکھے گا تو( اجازت دے دے گا)

سوال:        مرنے والے کے ذمہ خمس ہے اور اس نے اس کے نکالنے کی وصیت نہ کی تو وارثین کا کیا فریضہ ہے؟

جواب:        لازم ہے کہ اسکے چھوڑے ہوئے اصل مال سے وصیت پر عمل کرنے سے پہلے اور وراثت کی تقسیم سے پہلے اس کا خمس نکالے اور اس بات سے یہ چیز مستثنیٰ ہے کہ مرنے والا گنہگارہے اور اس نے خمس نہیں نکالا تو پھر جو مومن وارث ہے کہ جس پر خمس کا نہ نکالنا جائز ہے اور اس پر اپنی اس وارثت سے کہ جس پر خمس کاتعلق ہے اس سے بری الذمہ ہونا لازم نہیں ہے،اور اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو کسی مومن کی طرف کسی معاملہ کے ذریعہ یا مفت کسی ایسے شخص کو منتقل ہوتی ہے کہ جو خمس نہ نکالتا ہو تو وہ مومن اس کا مالک ہے اور اس کے لئے  اس چیز میں تصرف کرنا جائز ہے۔

اور اسی طرح کسی  شخص نے جو خمس نہیں دیتا اپنی چیز کو کسی مومن کے واسطے بغیر ملکیت کے مباح کردے تو اس مومن کو اس میں تصرف کرنا جائز ہے،کیونکہ ایسی صور ت میں مومن پر سختی ہوگی اور اس کا جو کچھ بار اور بوجھ ہے خود خمس نہ دینے والے پر ہے اگر اس نے خمس کے دینے میں کوتاہی کی ہو تھوڑی دیر کے لئے  میرے والد خاموش ہوگئے تو میں نے جلدی سے عرض کیا ۔

سوال:        وہ تاجر،زمین کا مالک،کاشتکار،کار خانہ دار‘زمین دار،مزدورنوکری،کرنے والے،اور طالب علم وغیرہ کیا کریں کہ جنھوں نے نہ خمس دیا اور نہ ہی اپنے کئی سال کا خمس کا حساب کیا ؟ اور انھوں نے اپنے اموال سے کئی سال فائدہ حاصل کیا،گھروں کو بنوا یا اور ضروریات زندگی مثلاًکپڑے،فرش اور دوسرے سامان خریدے اس کے بعد وہ خمس نکالنے پر آگاہ ہوئے تو وہ کیا کریں؟

جواب:        جوتم نے ذکر کیا اور جن چیزوں کوشمارکیا ان تمام چیزوں پر خمس نکالنا واجب ہے جب کہ وہ سال کا خرچ نہ ہوں،بلکہ وہ چیزیں سال کی ضروریات سے زیادہ ہوں ۔

سوال:        جو آپ نے بیان فرمایا اس کی ذرامثال بیان کیجئے؟

جواب:         کسی نے گھر خریدامگر اس میں سکونت اختیار نہ کی کیونکہ دوسرا گھر اس کے پاس تھااس میں اس نے سکونت اختیار کی لہٰذا  اس گھر کا خمس دے۔

اور دوسرے ایسے سامان خریدے کہ جن کی اس کو ضرورت نہ تھی لہٰذاان پرخمس نکالنا واجب ہے۔

سوال:        جن چیزوں کو سال کے خرچ کے واسطے خریدا مثلاًگھر خریدا تاکہ اس میں رہے،یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس سے اپنی ضرورت کو پورا کرے،اور اسی طرح دوسری چیز  یں خرید یں؟

جواب:        مثلاً گھر خریدا تاکہ اس میں رہے  یا دوسرا سامان خریدا تاکہ اس کے منافع سے سال کا خرچ نکالے یا اس کو کام میں لائے تو ان چیزوں پرخمس واجب نہیں ہے۔

سوال:        مثلاًکسی نے اپنے رہنے کے واسطے گزشتہ سالوں کا جو منافع جمع تھا اس سےگھر خریدا،اور ساتھ ہی ساتھ اس سال کا بھی منافع اس میں شامل ہوگیا ہو جیسا کہ میرے خیال میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ چند سالوں کا منافع جمع کرکے خمس کے حساب کو اپنے اوپر خلط ملط کرلیتے ہیں(تو وہ کیا کریں)؟

جواب:        ان پر واجب ہے کہ وہ حاکم شرع یا اس کے نائب کی طرف رجوع کریں تاکہ اس مقدار مشکوک میں( جو کئی سال کے منافع یا گھرمیں رہنے والےسال کے منافع میں ہے) حاکم شرع کے ساتھ مصالحت ہوجائے لیکن جو گذشتہ سالوں کی بچت کی بات ہے تو وہ یہی ہے کہ فوراً اس کا خمس نکالے۔

سوال:        اگر کوئی خمس کی ادائےگی پر ایک دم،فوراً قادر نہ ہو یا اس کے لئے خمس کی ادائےگی میں زحمت ومشقت ہوتو؟

جواب:        اس فوریت کو حاکم شرع یا اس کا قائم مقام ساقط کرکے اس کے ذمہ قسط وار کردے گا تاکہ بغیر کسی سستی اور غفلت کے ادا کرسکے ۔

سوال:        ابھی میں آپ کے ساتھ اس گھر میں رہتا ہوں،کیا مجھ پرخمس واجب ہے یا جو آپ خمس دیتے ہیں کافی ہے؟

جواب:        ہاں تم پر خمس واجب ہے،اس چیز میں جو تم کو نفع حاصل ہوتا ہے حالانکہ تم میرے ساتھ اس گھر میں رہتے ہو اگر تم کو کوئی فائدہ حاصل ہو اور وہ فائدہ پورے ایک سال تمہارے پاس باقی رہے،اورتم نے اس کو اپنی ضرورت میں صرف نہیں کیا کیونکہ تم کو اس کی حاجت نہیں تھی تو اس کا خمس نکالو ۔

سوال:        میں گرمیوں کی چھٹی میں تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوتاہوں مجھے ہر مہینہ وظیفہ ملتا ہے آپ اس کو مجھ سے نہیں لیتے تاکہ میں اس کو اپنے اوپرصرف کروں مثلاً لباس اور دوسری ضروری چیزیں خریدوں تو کیا مجھ پر اس ماہانہ وظیفہ کا خمس دینا واجب ہے؟

جواب:         جب کہ تم اپنے اوپر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے ہو تو پھر تم پر خمس دینا واجب نہیں ہے اور اگر تم اس کو جمع کرتے ہو یا تھوڑا جمع رکھتے ہو اور اس پر پورا سال گزرجائے تو اس جمع شدہ رقم پر خمس دیناواجب ہے۔

سوال:        کسی نے تجارت کی جگہ کو پگڑی پر لیا اس میں تجارت کرنے کا سامان تھا پہلے سال ان کا خمس نکال دیا گیا،کیا ہر سال پگڑی کی بناپر اس جگہ کی قیمت اور اس کے سامان کی قیمت کی زیادتی کی بناپر خمس نکالاجائے گا؟

جواب:        ہرگز نہیں ،بلکہ اس کی اضافی قیمت پر جگہ بکنے کے بعد ،اور فائدہ حاصل ہونے کے بعد، جب کہ اس رقم کو سال کے اخراجات میں صرف نہ کیا گیا ہو،خمس واجب ہوگا۔

سوال:        وہ برتن جو کھانے پینے کے لئے  تیار کئے جاتے ہیں اگر ان کو زینت کے طور پر استعمال کیا جائے تو کیا یہ استعمال خمس کو ساقط کردے گا؟

جواب:        اگر عام لوگوں کے نزدیک ایسا استعمال سال کے اخراجات میں شمار ہوتا ہو تو پھر ان پر خمس واجب نہیں ہے ۔

سوال:        ایک بنائی ہوئی چیز کااس کے مالک نے خمس دے دیا اب اس نے اس کو دوسری چیز میں تبدیل کردیا پہلی چیز کی بہ نسبت اس دوسری چیز کی قیمت زیادہ ہے پس اس کے مالک نے اس کو محفوظ کر کے اس کا ذخیرہ کرلیا اور ایک سال اس پر کزر گیا تو کیا اس کی قیمت کی زیادتی پر خمس دینا ہوگا؟

جواب:        اس زیادتی قیمت پر اس وقت تک خمس واجب نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے مالک نے اس کومحفوظ کرنے کا اور اس کو ذخیرہ کرنے کا ارادہ نہ کیا ہو

سوال:        بعض غذائی اجناس کو حکومت ذخیرہ کرلیتی ہے پھر اس کو بازار کی اونچی قیمت کے مقابلہ میں بہت کم قیمت پرفروخت کرتی ہے پس اگرایسی خریدی ہوئی چیز میں سے کچھ بھی کم نہ ہو اوراس پر اس طرح پورا سال گزرجائے تو اس کی قیمت کا حساب ذخیرہ کی قیمت کی بنیاد پریابازاری قیمت کی بنیاد پر کیا جائےگا؟

جواب:        خمس دیتے وقت بازار کی قیمت کی بنیاد پر اس کا حساب کیا جائےگا۔

سوال:            کسی نے زمین خریدی اور شرعی طور پر اس کا مالک ہوگیا اور اس کی قیمت بھی بڑھ گئی مگر وہ زمین قانونی طور پر اس کے نام نہیں  ہے بلکہ دوسرے کے نام ہے اور وہ کسی بھی وقت مالک شرعی سے جب چاہے اس کو نکال کراپنے قبضہ میں کرسکتا ہے،تو کیا اس (مالک شرعی) پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے یا جب قانونی طورپر (وہ زمین) اس کے نام ہوجائے اس وقت خمس دینا واجب ہے؟

جواب:      اگرخمس کے بیان کئے ہوئے شرائط اس میں پائے جارہے ہوں تو اس پر اسی وقت خمس دینا واجب ہے۔

سوال:        ریٹائرڈ شدہ لوگوں کوحکومت کی طرف سے جو پینشن ملتی ہے وہ پینشن لیتے وقت خمس واجب ہے یا سال تمام ہونے پر ؟

جواب:        جب سال تمام ہوجائے تواس کی اضافی رقم پر خمس واجب ہے۔

سوال:        جب میں خمس نکالوں تو کس کو خمس کی رقم دوں؟

جواب:         خمس کے دو حصے ہوں گے ایک حصہ امام منتظر ( عجل اللہ تعالٰ فرجہ الشریف) کا ہے یہ رقم ان امور میں خرچ کی جائے گی جن میں امامؑ کی رضا ہوگی اور اس کی اجازت وہ مرجع (جواعلم ہو اور تمام جھات عامہ کی اطلاع رکھتا ہو)دے گا یا خود اس مرجع کو وہ رقم دی جائے گی اوردوسرا آدھا حصہ ہاشمی فقراء،مساکین مسافرین،مومنین کا ہے اور اسی طرح غریب مومنین،یتیم بچے اور دین کی خدمت کرنے والوں کا بھی حصہ ہے اور یہاں ہاشمیوں سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جن کا سلسلہ نسب باپ کے اعتبار سے جناب ہاشم جد نبی  ﷺ پر تمام پر ہوتاہو۔

یہ(خمس ان لوگوں کو دینا صحیح نہیں کہ جن کا نفقہ خود صاحب مال پر واجب ہو جیسے ماں، باپ، زوجہ اور اولاد،اسی طرح جو حرام میں خرچ کرتا ہو اس کو بھی خمس دینا جائزنہیں ہے (بلکہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ خمس کا دینا گناہ کرنے پر مدد کا باعث نہ ہو،ا گرچہ حرام میں خرچ نہ کرے،نیز تارک الصلوۃ یا شراب خوار یا کھل کر فسق وفجور کرنے والے کو خمس دینا جائز نہیں ہے۔

تمام شد

 

index