حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں کہ جب تم لوگوں نے عثمان کے حادثہ کے بعد تو میرے پاس آکر کھاھم آپ کی بیعت کرنا چاھتے ھیں ،میں نے کھامیں اس پر راضی نھیں ھوں تو تم نے اصرار کیا کہ آپ مانیں ،میں نے واضح طور پر کھاایسا نھیں ھو سکتا میں نے اپنی مٹھی بند کرلی لیکن تم اسے کھول رھے تھے میں تمہارے ساتھ جھگڑرھاتھا اور تم سر تسلیم خم کئے ھوئے تھے۔ وہ اس معاملہ میں مجھ سے بیمار اونٹ کی طرح مضطرب ھو رھے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کھیں مجھے قتل نہ کر دو ،یا کھیں ایک دوسرے کو قتل نہ کر بیٹھو ،یہ سوچ کر میں نے مٹھی کھول دی اور تم لوگوں نے اپنے اختیار اور مرضی کے ساتھ میری بیعت کی۔۔ تم میں سب سے پھلے طلحہ اور زبیر نے میری بیعت کی،یہ دونوں کسی مجبوری کے بغیر میری اطاعت میں آئے، پھر انھوں نے اس بیعت کو توڑ دیا ،اللہ جانتا ھے کہ ان دونوں نے دھوکے کا ارادہ کیا تھا میں نے دوسری مرتبہ پھر ان سے تجدید بیعت کروائی تھی تاکہ امت مرحومہ میں بغاوت نہ پھیل جائے، انھوں نے دوسری مرتبہ بیعت کی لیکن اسے بھی پورا نہ کیا اور میرے عھد و پیمان اور بیعت کو توڑ دیا ۔[1]
جب حضرت عائشہ ،طلحہ اور زبیر ( مکہ سے بصرہ جاتے وقت ) مل گئے تو حضرت علی (ع) نے اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد ارشاد فرمایا عائشہ ،طلحہ اور زبیر جب اس راہ پر چل نکلے ھیں تو میں بتا دینا چاھتاھوں کہ ان میں سے ھر ایک فقط اپنی ذات کے لئے خلافت کا مدعی ھے۔
طلحہ اس لئے مدعی خلافت بنا کہ میں حضرت عائشہ کا چچا زاد ھوں اور زبیر اس لئے خلافت کا دعوے دار بنا کہ میں اس کے باپ کا سر ھوں خدا کی قسم اگر یہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ھو جاتے تو زبیر‘ طلحہ کی گردن اڑا دیتا اور طلحہ‘ زبیر کی گردن اڑا دیتا اور یہ دونوں ملک حاصل پر جنگ شروع کر دیتے ۔
خدا کی قسم! میں جانتا ھوں عائشہ اونٹ پر سوار ھوئی تو یہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے اور کسی مقام کو پانے کے لئے نہ تھا بلکہ یہ معصیت اور گناہ تھا یہاں تک کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے دل میں جو کچھ بھی تھا اس کو لئے ھوئے میدان جنگ میں کود پڑے۔ ایک تہائی لوگ مارے گئے ایک تہائی لوگ بھاگ گئے اور ایک تہائی ھمارے پاس لوٹ آئے ۔
خدا کی قسم طلحہ اور زبیر جانتے ھیں کہ انھوں نے گناہ کیا ھے اوروہ اس سے جاھل نھیں ھیں ،کبھی کبھی انسان جانتا ھے کہ اس کا جھل اس کا قاتل ھے اور اس کے ساتھ اس کا علم کوئی فائدہ نھیں دیتا ۔خدا کی قسم اس پر حواب کے کتے بھونکے تھے کیا کوئی معتبر شخص اس پر اعتبار کر سکتا ھے ؟یا کوئی مفکر ایسی فکر رکھ سکتا ھے ؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا :باغی گروہ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ھے پس احسان کرنے والے کہاں ھیں ؟[2]
جب حضرت علی علیہ السلام نے ربذہ سے بصرہ کی طرف جانے کاا رادہ ظاھر کیا تو رفاعہ بن رافع کا بیٹا پوچھتا ھے ۔
اے امیرالمومنین !آپ کس چیز کا ارادہ رکھتے ھیں اور کہاں جانا چاھتے ھیں۔
حضرت نے فرمایا جہاں تک میرے ارادے اور نیت کا تعلق ھے اگر انھوں نے اس کو قبول کیا اور ھمارا جواب دیا تو ھم ان لوگوں کی اصلاح کرنا چاھتے ھیں۔ وہ کھتا ھے اگر انھوں نے جواب نہ دیا تو؟حضرت نے فرمایا: ھم انھیں بلا کر عذر پوچھیں گے ،حق کی اطاعت کھیں گے اور صبر کریںگے۔
وہ کھتا ھے اگر وہ اس پر بھی راضی نہ ھوئے تو ؟
حضرت نے فرمایا: ھم کھیں گے کہ ھمارا پیچھاچھوڑدو۔
وہ کھتا ھے اگر انھوں نے نہ چھوڑا تو ؟
آپ نے فرمایا: ھم خود کو ان سے دور رکھیں گے۔
وہ کھتا ھے ،یھی اچھا ھے ۔[3]
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امیرالمومنین عبداللہ بن زبیرکی طرف معاویہ بن سفیان کا خط
سلام علیک۔
میں نے اھل شام کو تمہاری بیعت کے لئے آمادہ کر لیا ھے اور انھوں نے اس کو قبول کیا اور شھر کے شھر پر جمع ھو گئے البتہ کوفہ اور بصرہ تیرے لئے نھیں ھے۔
ان کی طرف تم سے پھلے ابن ابی طالب سبقت نہ کر بیٹھیں کیونکہ اگر ان دونوں شھر وں پر قبضہ نہ ھوا تو گویا کچھ بھی نہ ھوا، میں نے تیرے بعد طلحہ بن عبداللہ کی بیعت لی ھے۔
لہٰذا واضح طور پر عثمان کے خون کا مطالبہ کر دو اور اس معاملہ پر لوگوں کو جمع کرو، تمھیں چاھیے کہ تم دونوں ایک بن جاؤ ،اللہ تمھیں فتح دے گا اور مخالفین کو دھوکا۔
جب یہ خط زبیر کوملا تو اس کی خوشی کی انتہاء نہ رھی، اس نے طلحہ کو بتایا اور اس کے سامنے خط پڑھا اور معاویہ کی اس چالاکی پر دونوں نے شک تک نہ کیا اور دونوں عثمان کے معاملہ میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف اکٹھے ھو گئے ۔[4]
جب طلحہ زبیر اور عائشہ جنگ شروع ھونے سے قبل بصرہ میں اکٹھے ھوئے تو آپ نے انھیں خط لکھا :
تم دونوں نے اطاعتا ًمیری بیعت کی تھی اب تم دونوں جہاں پر بھی ھو اللہ تعالی سے معافی مانگو،اور اگر تم دونوں نے مجبورا بیعت کی تھی تو پھر تمہارے لئے کوئی راہ نکل سکتی ھے یا تو اطاعت کرنے کے ساتھ پاک ھوجاتے ۔جبکہ نافرمانی اور معصیت تمہارے اندر پوشیدہ تھی، اے زبیر تم تو فارس قریش کھلاتے تھے اور اے طلحہ تم تو مہاجرین کے شیخ مشھور تھے اس معاملہ میں داخل ھونے سے پھلے میں تمھیں روک رھاھوں، اقرار کرلینے کے بعد جنگ میں کودنے سے یہ زیادہ بھتر ھے۔ تمہارا یہ کھنا کہ میں نے عثمان بن عفان کو قتل کروایا ھے تمہارے اور میرے درمیان اللہ گواہ ھے کہ تم نے اھل مدینہ میں سے میری مخالفت کی ۔
اوریہ عثمان کی اولاداس کے اولیاء ھیںاگرچہ وہ مظلومیت میں مارا گیا جیسا کہ تم دونوں کھتے ھو اور تم مہاجرین کے مرد ھو ،تم نے میری بیعت کی اور پھر اسے توڑا اور مجھ سے جنگ کے لئے نکل کھڑے ھوئے اور تم نے اس گھر سے نکلنے کا حکم لگادیا جس کو گھر میں رھنے کا حکم اللہ نے دیا تھا اور اللہ ھی تمھیں کافی ھے۔ والسلام۔[5]
اما بعد! یقینا تو گھر سے اللہ اور اس کے رسول (ص)کی نافرمانی کرتے ھوئے نکلی ھے اور تو اس چیز کا مطالبہ کرتی ھے جو تیرے لئے مناسب نھیں ھے اور اپنے سے بنا لیا ھے کہ میں لوگوں کی اصلاح کر نے کے لئے نکلی ھوں۔مجھے بتا کہ عورتوں کا فوج کے لشکروں میں کیا کام ھے اور پھر تو سوچتی ھے کہ میں عثمان کے خون کا مطالبہ کر رھی ھوں جبکہ عثمان بنی امیہ سے تھا اور تو بنی تمیم کی عورت ھے۔
اپنی جوانی کی قسم تم نے خود کو مصیبت میں پھنسا دیا ھے اور تم نے عثمان کے قتل سے بھی بڑا گناہ کیا ھے اور تمہارا غضب خود تمہارے اوپر ھے اور تم نے فقط اپنی توھین کی ھے ۔
اے عائشہ اللہ سے ڈرو اور گھر میںچلی جاؤمیں نے تیرے پردے کا اھتمام کردیا ھے ۔
والسلام ۔
حضرت عائشہ نے آپ (ع)کو جواب دیا معاملہ اب غصہ سے ظاھر ھوگا ھم کبھی بھی آپ کی اطاعت میں داخل نہ ھوں گے آپ کا جو جی چاھتا ھے وھی کرو۔ والسلام۔[6]
جب حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ لوگ جنگ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ھیں آپ نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انھیں خطبہ دیتے ھوئے فرمایا۔
اے لوگو! جان لو میں نے اس قوم کو بھانپ لیا ھے اور انھیں ڈرایا دھمکایا ھے کہ کس راہ پر چل پڑے ھو، انھوں نے انکار کیا اور مجھے صحیح جواب نہ دیااور مجھے پیغام بھیجا، مجھے طعنے دئیے اور جلاّد معین کیا، میں جنگ نھیں کرنا چاھتا تھا اور نہ میں اس کا دعوےدار تھا۔
قارہ قبیلہ کے لوگوں نے تیر اندازی شروع کی اور میں ابولحسن نے اس قوم کے قلب کو توڑا انھیں ،بھاگنے پر مجبور کیا انکی جماعت کو متفرق کردیا اسی وجہ سے ان کے دل میں میری مخالفت پیدا ھوگئی لیکن میں اپنے رب کی واضح دلیل پر ھوں کہ اس نے مجھ سے نصرت و کامیابی کا وعدہ فرمایا ھے ۔
مجھے اپنے معاملے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے خبردار موت (تو یقینی ھے) ٹھھرنے والے کو معاف نھیں، بھاگنے والے سے عاجز نھیں ھے اور جس نے جنگ نہ کی وہ بھی مارا جائے گا اور افضل موت میدان جنگ میں شہادت ھے۔پھر آپ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے ارشاد فرمایا : پروردگارا!
اس طلحہ نے میری اطاعت کی قسم کھائی تھی پھر اس نے میری بیعت کو توڑ ڈالا ،پروردگارا اسے بلا لے اور اسے مھلت نہ دے اور زبیر بن عوام نے میری قرابت داری کو ختم کیا ھے میرے عھد کو توڑا ھے اور ظاھر بظاھر میرا دشمن بن گیا ھے اور مجھ سے جنگ کی ھے اور یہ بھی جانتا تھا کہ مجھ پر ظلم کر رھاھے پروردگارا تو جس طرح چاھے اسے برباد کر ۔[7]
ابن جریر اپنی تاریخ میں بیان کرتے ھیںکہ حضرت عائشہ جب بصرہ کے راستہ میں ایک جگہ پھونچی جہاں پانی بھرا ھوا تھا اور اسے حواب کھتے ھیں ۔ وہاں کے کتوں نے اس پر بھونکا تو عائشہ نے پوچھا یہ کون سی جگہ ھے اونٹ چلانے والے نے جواب دیا یہ حواب ھے ۔
اس نے فوراً (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) پڑھااور بلند آواز سے رونا شروع کر دیا اور اونٹ کی کوہان پر خود کو مارنا شروع کر دیا ۔
اور پھر کھاخدا کی قسم میں ھی وہ ھوں جس پر حواب کے کتے بھونکے ،اور تین مرتبہ کھامجھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم میں وآپس لے چلو ۔[8]
ابن سعید، ھشام بن محمد الکلبی سے حکایت بیان کرتا ھے جب حضرت عائشہ رکی ،اور واپس جانے کا ارادہ کیا اور اسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان یاد آگیا کہ جس میں حضور نے یہ فرمایا تھا کہ میری اس بیوی کا کیا حشر ھوگا کہ جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے ۔
طلحہ اور زبیر نے اس سے کھاکہ یہ حواب نھیں ھے اور اونٹ چلانے والے کو غلط فھمی ھوئی ھے ۔پھر انھوں نے پچاس آدمیوں کو بلا کر گواھی دلوائی اور خود بھی ان کے ساتھ گواھی دی اور قسم کھائی کہ یہ مقام حواب نھیں ھے شعبی کھتے ھیں کہ یہ اسلام میں سب سے پھلی جھوٹی گواھی دی گئی۔[9]
سیف بن عمر کھتے ھیں جب عائشہ بصرہ پھنچ گئی اور اپنی اونٹنی سے نیچے اتری اس وقت عثمان بن حنیف حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے بصرہ میں گورنر تھے تو عائشہ نے ان کے درمیان جنگ شروع کرو ادی تواس سے ابن قدامہ سعدی کی کنیز حارثہ نے پکار کر کہا:
اے ام المومنین !اس معلون اونٹ پر سوار ھوکر گھر سے نکلنے کی نسبت عثمان کا قتل زیادہ آسان ھے کیونکہ اللہ نے تیرے لئے پردہ واجب قرار دیا ھے تم نے اپنے پردے کی توھین کی ھے جو تیرے ساتھ جنگ کر سکتے ھیں تیرے قتل کا بھی سوچ سکتے ھیں۔
اگر تواطاعت کے عنوان سے آئی ھے تو اپنے گھر لوٹ جا اور اگر تو اس کو پسند نھیں کرتی تو میں استغاثہ بلند کرتی ھوں ۔[10]
اس طرح بخاری نے بھی مندرجہ بالا حدیث کے ایک حصے کو حضرت ابوبکر سے بیان کیا ھے،
اللہ تعالی مجھے اپنے کلمات سے نفع دے میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے سنا ھے کہ جنگ جمل میں عنقریب حق اصحاب جمل کے ساتھ نھیں ھوگا پس ان سے جنگ کرو۔
بخاری کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس سے خبر پھنچی کہ اھل فارس پر کسری کی بیٹی حاکم بن گئی ھے تو آپ نے فرمایا وہ قوم کبھی بھی فلاح نھیں پاسکتی جن کے امور ایک عورت کے ہاتھ میں ھوں۔[11]
طلحہ اور زبیر نے عثمان بن حنیف کو رات کی تاریکی میں دھوکا دیا اس وقت وہ مسجدمیں نمازپڑھ رھے تھے جب وہاں کوئی باقی نہ رھاتو انھوں نے اس کے چھرے کے بال اس طرح نوچ لئے کہ کوئی بال چھرے پر باقی نہ رھاپھر اسے عائشہ کے پاس لے آئے تاکہ اسے سزا دے۔
عائشہ نے کھااسے قتل کر دو اس کی بیوی نے کھااللہ سے ڈرو یہ تو حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا صحابی ھے عائشہ نے کھااسے گرفتار کر لو اور اسے چالیس کوڑے لگاؤ اور اس کے سر ،داڑھی ،ابرو،اورآنکھو ں کے بال نوچ لو چنانچہ ان لوگوں نے اسی طرح کیا ،بصرہ کے بیت الما ل کو لوٹ لیا اور ستر مسلمان بغیر جرم و خطاء قتل کر دیئے گئے یہ اسلام میں ظلما ًپھلا قتل عام تھا۔[12]
حضرت علی (ع) نے اپنے ساتھیوں کو ان لوگوں کے ساتھ جنگ پر آمادہ کرتے ھوئے ارشاد فرمایا:اے اللہ کے بندو اس قوم کے حملوں کو روکو اورجنگ میں اپنے سینوں کو ان کے سامنے تان لو کیونکہ انھوں نے میری بیعت توڑی ھے اور میرے عامل ابن حنیف کو بھت زیادہ مارنے اور سزا دینے کے بعد بصرہ سے نکال دیا ھے، انھوں نے نیک وصالح لوگوں کو قتل کیا ھے (یہ وہ صالح افراد تھے جن کے سپردحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بصرہ کا بیت المال کیا تھا۔ ) اور انھوں نے حکیم بن جبلہ عبدی اور بھت سے نیک لوگوں کا قتل کیا ھے، پھر فرمایا جو لوگ بھاگ گئے انھیں پکڑ کر لاؤ یہاں تک کہ وہ کسی دیوار وغیرہ کے پیچھے ھی کیوں نہ چھپے ھوں، پھر انھیں لاؤ اور ان کی گردنیں توڑ دو انھیں اللہ نے میرے ہاتھوں قتل کیا ھے ۔[13]
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے کون ان کے سامنے قرآن پیش کرے گا ایک نوجوان نکلا اس نے قرآن اٹھایا اور صفوں سے ظاھر ھوا اور کھااللہ اللہ!ھمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ھے انھوں نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا پھر دوسروے ہاتھ میں قرآن اٹھایا وہ بھی کٹ گیا پھر دانتوں میں لیا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا گیا حضرت نے بلند آواز سے کھااب تمہارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ھو گیا ھے لہٰذاان پر حملہ کردو۔[14]
جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام نے زبیر کوبلایا۔ وہ تھکا ماندہ آپ کی طرف آیا اس نے ذرہ پھنی ھوئی تھی اور مکمل طور پر ھتھیار بند تھا۔ آپ نے زبیر سے کھاتو جو یہ مسلح ھو کر آگیا ھے کیا اللہ کی بارگاہ میں اس کا کوئی عذر پیش کر سکتا ھے زبیر نے کھاھم نے تو اللہ ھی کی بارگاہ میں لوٹ کرجانا ھے۔
حضرت علی نے فرمایا تجھے میں نے اس لئے بلایا تھا تاکہ تجھے وہ بات یاد دلاؤں جو تمھیں اور مجھے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمائی تھی ۔
کیا تجھے یاد ھے کہ جب تجھے (حضرت نے)دیکھا تھا اور تو میرے ساتھ جھگڑ رھاتھا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس سے محبت کرتے ھو اور میں نے کہاتھا کہ میں اس سے محبت کر تا ھوںکیونکہ یہ میرا بھائی اور میرا خالہ زاد ھے۔ اس وقت حضرت نے فرمایا تھا یہ عنقریب تیرے ساتھ جنگ کرے گا۔
یہ سننا تھاکہ زبیر نے” انا للہ و انا الیہ رجعون“ کا ورد کیااور کھاآپ نے مجھے وہ چیز یاد دلائی ھے جو میں بھول چکا تھا اور یہ کہہ کر وہ اپنی صفوں میں واپس لوٹ گیا۔
اس کے بیٹے عبداللہ نے اس سے کھا: تم تو لڑنے کے لئے گئے تھے اور بغیر لڑے کیوں واپس آگئے ھو ،اس نے کھامجھے حضرت علی علیہ السلام نے وہ بات یاد دلائی ھے جسے میں بھول چکا تھا میں اب ان سے کبھی جنگ نہ کروں گا۔ میں لوٹ آیا ھوں اور آج تمھیں چھوڑ کر جا رھاھوں ۔
عبداللہ نے کھامیرے خیال میں تم بنی عبدالمطلب کی تلواروں سے ڈر گئے ھو جو بھت تیز تلواریں ھیں اور بڑی تباھی مچا دیتی ھیں ۔
زبیر کھتا ھے تیرے لئے ھلاکت ھو تم مجھے جنگ کرنے پر ابھارتے ھو جبکہ میں نے قسم کھائی ھے کہ میں کبھی ان سے جنگ نہ کروں گا۔
وہ کھتا پھر تم اپنی قسم کا کفارہ دو تجھ سے قریش کی عورتیں بات نہ کریں گی۔تم نے بزدلی کا مظاھرہ کیا ھے ۔پھلے تو تم بزدل نہ تھے،زبیر نے کھامیرا غلام مکحول میری قسم کا کفارہ ھے ۔پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت علی علیہ السلام کے لشکر پر بے جان سا حملہ کیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس کا غم دور کردو یہ بھت تنگ ھوا ھے ۔پھر یہ اپنے ساتھیوں کے پاس بھاگ گیا پھر اس نے دوسری اور تیسری مرتبہ حملہ کیا ۔لیکن اس سے کچھ نہ بن سکااور اپنے بیٹے سے آکرکھاتو ھلاک ھو جائے !بتا کیا یہ بزدلی ھے ؟اس کے بیٹے نے کھایقینا اب تو معذور ھے ۔[15]
جس اونٹنی سے حضرت عائشہ گر گئی تو اسوقت جنگ اپنی انتہاء پہ تھی تو اس نے ایک عجیب سے آواز نکالی جو پھلے نہ سنی گئی تھی اور جب عائشہ کو شکست ھو گئی تو لوگ وہاں سے اس طرح بھاگے جس طرح ٹڈی پرواز کرتی ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے بلند آواز سے حکم دیا ،بھاگنے والوں کا پیچھا نہ کرو۔ زخمی پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ ان کے گرد حصار نہ بناؤ۔ ان کے ھتھیار اور لباس نہ چھینو،ان کا مال و متاع نہ لو۔ جو شخص ھتھیار پھینک دے وہ امن میں ھے اور جو اپنے دروازے بند کردے وہ بھی امان میں ھے۔[16]
کلبی کھتے ھیں میں نے ابوصالح سے پوچھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جنگ جمل میں کامیابی حاصل کر لینے کے بعد اھل بصرہ کو کس طرح معاف کر دیا؟اس نے کھاانھوں نے اس طرح انھیں امن و سلامتی کا حکم صادر فرمایا تھا جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد اھل مکہ کو معاف کردیا تھا ۔[17]
ابو الاسوددؤلی کھتے ھیں؟
جب حضرت علی (ع)جنگ جمل میں کامیاب ھو گئے تو مہاجرین و انصار کی جماعت کے ساتھ بصرہ کے بیت المال میں داخل ھوئے اس وقت میں بھی ان کے ساتھ تھا جب آپ نے بھت زیادہ مال و دولت دیکھا تو کئی مرتبہ ارشاد فرمایا:
”میرے غیر کو دھوکا دے“
پھر آپ نے مال کو دیکھنے کے بعد فرمایا:
میرے اصحاب میں پانچ، پانچ (۵۰۰)سو درھم تقسیم کردوچنانچہ وہ یہ مال ان لوگوں میں تقسیم کردیا گیا ،اس کے بعد فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ھے ایک درھم نہ کم ھوا اور نہ زیادہ ۔گویا آپ اس کی مقدار جانتے تھے۔ وہ کل ساٹھ لاکھ درھم تھے اور بارہ ہزار لوگ تھے۔[18]
حبہ عرنی کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے بصرہ کے بیت المال کو اپنے اصحاب کے درمیان( پانچ، پانچ سو درھم) تقسیم کردیا اور خود بھی فقط پانچ سو درھم لئے۔ گویا آپ بھی ان میں سے ھی ایک شخص تھے۔
اسی لمحے ایک ایسا شخص آگیا جو جنگ میں شریک نہ تھا وہ کھنے لگا یاامیرالمومنین !آپ شاھد ھیں کہ میں قلبا ًآپ کے ساتھ تھا اگرچہ جسما ًجنگ میں شریک نہ ھوسکا تو حضرت نے اپنے پانچ سو درھم اس کے حوالے کردیئے اور مال فئی میں کوئی چیز باقی نہ رھی ۔[19]
اس بات پر تمام راویوں کا اتفاق ھے کہ جنگ جمل کے لشکر کے جو ھتھیار اور سازو سامان تھے وہ لوگوں میں تقسیم کردئےے گئے۔ لیکن و ہ لوگ حضرت سے کھنے لگے کہ آپ اھل بصرہ کو بھی غلام بنا کر ھم میں تقسیم کردیں۔
تب حضرت نے فرمایا:
ایسا ھر گز نھیں ھوسکتا، انھوں نے کھایہ کیسے ممکن ھے کہ ان کا خون تو ھم پر حلال ھو اور ان کے بچے ھم پر حرام ھوں !
حضرت نے فرمایا: جس طرح کمزور لوگوں کی اولاد اسلام میں تجھ پر حلال نہ تھی البتہ میدان جنگ میں جومال متاع چھوڑ کر گئے ھیں وہ مال غنیمت ھے لیکن جو لوگ ساتھ لے گئے ھیں یا جنھوں نے اپنے دروازے بند کرلئے ھیں وہ سب ان کا مال ھے اس میں سے ذرا برابر بھی تمہارا حصہ نھیں ھے۔
جب اکثر لوگ اس پر راضی نہ ھوئے تو آپ نے فرمایاپھر تو تم حضرت عائشہ کے لئے بھی قرعہ ڈالوجس کا قرعہ نکلے وہ اسے لے جائے ۔وہ کھنے لگے امیرالمومنین ھم اللہ سے استغفار کرتے ھیں ، چنانچہ اس طرح وہ اپنے مطالبے سے ہٹ گئے [20]
مرحوم کشی نے رجال میں اپنی سند کے ساتھ ،مفید امالی اورالکافیہ میں سنی شیعہ دونوں سندوں کے ساتھ اور اسی طرح ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں اسی سے ملتی جلتی روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت امیرالمومنین نے جنگ جمل کے بعد عبداللہ ابن عباس کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا تاکہ اسے سواری پر بٹھاکر واپس جانے کا انتظام کرے۔
ابن عباس کھتے ھیں میں ان کے پاس آیا اور وہ بصرہ کے مضافات میں بنی خلف کے محل میں قیام پذیر تھیں میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن اس نے مجھے اجازت نہ دی اور میں بغیر اجازت کے ھی اندر چلا گیا لیکن وہ میرے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہ ھوئےں اور پردے کے پیچھے کسی نے اس کے لئے چادر بچھائی وہ اس پر بیٹھ گئےں اور مجھ سے کہا:
ابن عباس تم نے سنت گویا پا ئمال کر دیا ۔اور ھمارے گھر میں بغیر اجازت آئے ھو اور ھمارے سامنے ھماری اجازت کے بغیرآ بیٹھے ھو۔
ابن عباس نے کھاھم آپ کی نسبت سنت کے زیادہ حق دار اور زیادہ جاننے والے ھیں آپ کا گھر تو وھی ھے جسے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے آپ کے لئے چھوڑا ھے اور آپ اس سے باھر آگئےں ھیں جب آپ اپنے گھر لوٹ جائیں گی تو میں آپ کی اجازت کے بغیر وہاں داخل نہ ھوں گا۔[21]
ھشام بن محمد کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب عائشہ کے لئے بھترین سواری کا انتظام کیا اور انھیں بھت زیادہ مال ودولت عطا کیا اور ان کے ھمراہ انکے بھائی عبدالرحمن کو ۳۰مرد اور اشراف بصرہ کی بیس ۰ ۲ عورتوں کو عمامے پھنا کر مردوں کی طرح تلواروں کے ھمراہ انھیں روانہ کیا۔[22]
حضرت عائشہ اس واقعہ سے بھت پشیمان تھیں اور ھمیشہ واقعہ جمل کو افسوس وپشیمانی کے ساتھ رو رو کر بیان کرتیں تھیں اور ایک روایت یہ ھے کہ ان کی موت سے پھلے ان سے پوچھاگیا کہ آیا آپ کو حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس دفن کردیں ؟تو آپ نے کھانھیں کیونکہ انجانے میں ان کے بعد کیا کچھ کر بیٹھی ھوں۔[23]
ُزر کھتے ھیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام)کو یہ فرماتے ھوئے سنا میں نے فتنہ کی آنکھ پھوڑدی ھے ۔اگر میں اھل نھر اور اھل جمل کو قتل نہ کرتااور اگر میں گھبراجاتا اور اس کام کو ترک کر بیٹھتا تو تمہارے لئے وہ چیزیں ظاھر نہ ھوتےں جو اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد(ص) مصطفی(ص)کی زبان مبارک پر جاری فرمائی تھیں یعنی وہ کون شخص ھے جو انھیں ان کی گمراھی میں قتل کرے گا اور اس ھدایت کو جاننے والاھو گا جس پر ھم قائم ھیں۔[24]
خوارزمی اپنی کتاب مناقب میں ابو سعید خدری سے روایت بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ھمیں ناکثین ، قاسطین،اور مارکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ،ھم نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ نے جو ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ھے۔ ھم کس کے ساتھ مل کر ان سے جنگ کریں ؟
آپ نے فرمایا :تم لوگ حضرت علی (ع) کے ساتھ مل کر ان سے لڑیں اور عمار بن یاسر بھی حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیتے ھوئے شھید ھوں گے ۔[25]
عتاب بن ثعلبہ کھتے ھیں مجھے حضرت ابوایوب انصاری نے حضرت عمربن خطاب کی خلافت کے وقت بتایا تھا کہ”مجھے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کر ناکثین ،قاسطین ،اور مارکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم فرمایا تھا ۔[26]
عکرمہ کھتے ھیں کہ ابن عباس نے مجھے اور علی بن عبداللہ بن عباس سے کھاکہ تم دونوں ابو سعید کے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو ،ھم دونوں ابو سعید کے پاس گئے وہ ایک صحن میں بےٹھے تھے جب انھوں نے ھمیں دیکھا تو ھماری طرف چل دیئے۔
انھوں نے اپنی چادر اٹھائی اور پھر بیٹھ گئے اور پھر ھم سے باتیں کرتے رھے یہاں تک کہ ھماری گفتگو مسجد کی تعمیر تک پھنچی تو انھوں نے کھاھم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھایا کرتے تھے اور عمار دودو اینٹیں اٹھا لاتے تھے جب حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اسے دیکھا تو آنحضرت جناب عمار کے سر سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا :
عمار! تم اتنی اینٹیں کیوں نھیں اٹھاتے جتنی تمہارے ساتھی اٹھا رھے ھیں؟ جناب عمار نے عرض کی : میں بارگاہ خداوندی میں اجر کا طالب ھوں ،حضرت آپ سے مٹی جھاڑتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں ”اس باغی گروہ کے لئے ھلاکت ھو ،جو تجھے قتل کرے گا ،تو انھیں جنت کی طرف دعوت دے گا اور وہ تجھے جھنم کی طرف پکاریں گے۔[27]
علقمہ اور اسود کھتے ھیں ھم ابو ایوب انصاری کے پاس آئے اور ان سے کھا خداوندعالم نے ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سواری کو تمہارے دروازے پر رکنے کی وحی نازل فرما کر تمھیں عزت بخشی اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ کے مھمان ھوئے اوراللہ تعالی نے اس طرح آپ کو فضیلت عنایت فرمائی۔
ھمیں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کرجنگ کرنے کی خبر دی ، حضرت ابو ایوب کھتے ھیں میں تمہارے سامنے قسم کھاتا ھوں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اسی گھر میں جس میں تم ھو اور وہاں رسول کے علاوہ کوئی نہ تھا فقط حضرت علی علیہ السلام آپ کے دائےں طرف اور میں آپ کے بائےں طرف بیٹھا ھوا تھا اور انس بن مالک سامنے کھڑے تھے۔
اچانک دق الباب ھوا حضرت نے فرمایا دیکھو دروازے پر کون ھے ؟ انس گئے اور دیکھا اور کھاعمار بن یاسر ھیں حضرت نے فرمایا پاک وپاکیزہ عمار کے لئے دروازہ کھول دو، انس نے دروازہ کھولا اور عمار اند ر داخل ھوئے حضرت کو سلام کیا آپ اس سے خوش ھوئے اور پھر عمار سے فرمایا :
”عنقریب میرے بعد میری امت میں جھگڑا ھوگایہاںتک کہ تلواریں آمنے سامنے تلواریں چلےں گی اور کہ بعض مسلمان دوسرے مسلمانوں کو قتل کریں گے ۔اور ایک دوسرے سے برائت کا اظہار کریں گے۔ جب یہ وقت آن پھنچے تو تمہارے لئے میرے دائےں طرف بیٹھے ھوئے علی ابن ابی طالب ( علیہ السلام )کادامن تھامنا ضروری ھے۔
اگرچہ سب لوگ ایک وادی کی طرف جائیں اور علی (ع)دوسری وادی کی طرف جائے تم بھی علی (ع)کے وادی کی طرف چلو اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ دو، علی (ع) تجھے ھلاکت سے دور کریں گے۔ اے عمار علی (ع)کی اطاعت میری اطاعت ھے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ھے ۔[28]
حضرت امیر المومنین نے جریر بن عبداللہ بجلی کو معاویہ کی طرف ایک خط دے کر روانہ کیا جس میں اسے بیعت اور اطاعت کرنے سے متعلق مذکور تھا۔
حضرت کی تحریر اس طرح ھے:
امابعد!مدینہ میں میری بیعت ھو چکی ھے اور تم شام میں ھو کیونکہ جن لوگوں نے ابوبکر عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی انھوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول پر بیعت کی ھے جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے۔لہٰذا جو حاضر ھے اسے نظر ثانی کرنے کا حق نھیںھے۔
جو بروقت موجود نھیں اسے رد کرنے کا اختیار نھیں اور شوری کا حق صرف مہاجرین اور انصار کو ھے وہ اگر کسی پر اتفاق کرلیں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا اور خوشنودی سمجھی جائے گی ۔
اب جو کوئی اس کی شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کر کے الگ ھوجائے تو اسے وہ سب اسی طرح وآپس لائےں گے جدھر سے وہ منحرف ھوا ھے اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں گے ۔ کیونکہ وہ مومنوں کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ اختیار کرلی ھے۔ جدھر سے وہ پھر گیا ھے اللہ تعالی بھی اسے ادھر ھی پھیر دے گا اس کا مقام جھنم ھے جوکہ بھت برا ٹھکانہ ھے ،طلحہ اور زبیر نے میری بیعت کی اور پھر اسے توڑ دیا گویا ان کا بےعت توڑنا ان کے انکار کے برابرھے اوراس پر وہ ڈٹ گئے یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ تعالی کا امر ظاھر ھوگیا اور وہ انکار کرتے رھے ۔
لہٰذا تم بھی اسی بیعت میں داخل ھو جاؤ جس میں باقی مسلمان داخل ھوئے ھیں یھی معاملہ اچھا ھے اور اسی میں تیری عافیت ھے ورنہ تم مصیبتوں میں پھنس جاؤ گے، اگر تم نے انکار کیا تو تیرے ساتھ جنگ کی جائے گی اور میں اللہ سے تیرے خلاف مدد چاھوں گا اور تو عثمان کے قتل کے معاملہ میں حد سے بڑھ گیا ھے اور تو اس امر میں شامل ھو جا جس میں لوگ شامل ھوئے ھیں جبکہ لوگوں نے مجھے تم پر حملہ کرنے کو کھاھے۔
انھیں اللہ کی کتاب سے ڈراؤ لیکن اگر تم اسی پر ڈٹے رھے جس کا تم نے ارادہ کیا ھے، تو یہ بچے کو دودھ کا دھوکا دینا ھوا مجھے اپنی زندگی کی قسم اگر میں تیری عقل اور تیری خواھش کو مدنظر نہ رکھتا تو سمجھا جاتا کہ قریش عثمان کے خون سے بری الذمہ ھیں اور جان لو کہ تم ان آزاد شدہ(غلاموں) سے ھو جن کو خلیفہ نھیں بنایا جاسکتا اور شوری کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نھیں ھے ،بھرحال میں نے تیری طرف جرید بن عبداللہ بجلی کو بھیجا ھے جو کہ اھل ایمان اور مہاجرین میں سے ھیں لہٰذا اس کے ہاتھ پر بیعت کرو کیونکہ طاقت و قوت فقط اللہ کی ذات کے لئے ھے۔[29]
نصر بن مزاحم کھتے ھیں کہ معاویہ نے عمر ابن عاص کو خط لکھا جو کہ فلسطین میں اس کی بیعت کروانے گیا ھواتھا۔
اما بعد! یقینا تم پر علی( علیہ السلام)طلحہ اور زبیر کا معاملہ واضح ھو گیا ھوگا اھل بصرہ نے مروان بن حکم کو نکال دیا ھے اور ھمارے پاس جرید بن عبداللہ بجلی کو حضرت علی (علیہ السلام)نے بیعت کے لئے بھیجا ھے جبکہ میرا گمان تیرے متعلق وھی ھے لہٰذا جس طرح تجھے کھاگیا ھے وےسا ھی کرنا ۔[30]
جرجانی کھتے ھیں کہ عمرو عاص نے معاویہ کے پاس ایک رات گزاری جب صبح ھوئی تو اسے مصر کی گورنری مل گئی جس کی وہ خواھش رکھتا تھا وہ اسے مل گئی اور اس کے ساتھ اسے ایک خط بھی دیا۔۔۔ پھرمعاویہ نے عمروعاص سے پوچھا حضرت علی (علیہ السلام)کے متعلق تمہاری کیا رائے ھے ؟
عمرو نے کھامیں تو فقط اس میں خیر ھی خیر دیکھتا ھوں اور تیرے لئے اور اھل عراق کے لئے اس بیعت میں بھلائی نظر آتی ھے اور وہ لوگوں میں بھترین شخص ھیں اور اھل شام کے متعلق تیرا یہ دعویٰ کہ وہ بیعت کو رد کردیں گے۔ اس میں بھت خطرہ ھے۔
اھل شام کا سردار شر حبیل بن سمط کندی ھے جو کہ تیری طرف خط لانے والے جریر کا بڑا دشمن ھے اس کی طرف اپنے کسی قریبی کو بھیجو تاکہ وہ لوگوں میں یہ خبر مشھور کردے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)نے عثمان کو قتل کیا ھے تاکہ وہ شرجیل کے نزدیک پسندےدہ ھوجائیں یہ تیرے حق میں تیرے ماتحت شامیوں کے لئے بڑی بات ھے ۔[31]
معاویہ نے شرحبیل کو خط لکھا حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے جریر بن عبداللہ کو ھمارے پاس بیعت کے لئے بھیجا ھے۔ اب ھم کیا کریں؟ اور معاویہ نے یزید بن اسد‘ بسر بن ارطاہ‘ عمر بن سفیان‘محارق بن حارث زبیدی ،حمزہ بن مالک حابس بن سعد طائی وغیرہ (یہ سب قحطان اور یمن کے سردار اور حضرت معاویہ کے خصوصی لوگ ھیں)اور اپنے چچا زاد شرحبیل بن السمط کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ شامل ھو جائیں۔انھیں بتایا کہ حضرت علی (ع)نے عثمان کو قتل کیا ھے جب شرحبیل آیا تومعاویہ نے اس سے کھاحضرت علی (ع)نے جریر بن عبداللہ کو ھمارے پاس بیعت کے لئے بھیجا ھے۔لیکن اگر عثمان بن عفان کو قتل نہ کرتے تو حضرت علی (ع)لوگوں میں سب سے بھتر شخص تھے ۔لیکن میرا خیال ھے کہ یہ سب کچھ تیرے متعلق ھے جبکہ میں تو شام کا ایک عام آدمی ھو ں۔
شرحبیل نے کھاباھر نکل جاؤ اور وہ باھر نکل گیا پھر شرحبےل نے بعض افراد سے ملاقات کی تو سب نے اسے بتایا کہ حضرت علی (ع)نے عثمان قتل کیا ھے۔
لہٰذا وہ غصے کے عالم میں معاویہ کی طرف نکلا اور کھامعاویہ سب لوگ کھتے ھیں کہ عثمان کو حضرت علی نے قتل کیا ھے خدا کی قسم اگر اس کی بیعت کی تو ھم تجھے شام سے نکال دیں گے اور تیرے ساتھ جنگ کریں گے معاویہ نے کھامیں نے تو تمہاری مخالفت نھیں کی میں تو شام کا ایک عام آدمی ھوں اس نے کھاکہ فوراً جرےر بن عبداللہ کو یہاں نکال کراس کے ساتھی کی طرف وآپس بھیج دو ۔[32]
معاویہ اور عمر ابن عاص نے جو کھیل کھیلا تھا ۔وہ اسی طرح چلتا رھااور انھوں نے جو ارادہ کیا تھا ۔وہ اختتام کو پھنچا ،شرحبیل بن لسمط شام کے اردگرد جاکر لوگوں کو حضرت علی( علیہ السلام)کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کرتا رہا۔[33]
معاویہ نے حضرت علی (علیہ السلام)کو جریروالے خط کا جواب دیتے ھوئے لکھا:
اما بعد ! جس طرح دوسرے لوگوںنے آپ کی بیعت کی ھے اس طرح یہ قوم بھی آپ کی بیعت کرے تو آپ خون عثمان سے بری الذمہ ھو جائیں گے اور حضرات ابوبکر عمر و عثمان کی طرح خلےفہ بن جائیں گے لیکن آپ نے مہاجرین و انصار کو دھوکہ دیا اور عثمان کے خون کے بارے میںدھوکا میں رکھا ھے یہاں تک کہ جاھلوں نے آپ کی اطاعت کی ھے اور ناداروں نے آپ پر بھروسہ کیا ھے۔
جبکہ اھل شام آپ کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتے ھیں مگر یہ کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ھمارے سپرد کردیں پھر وہ آپ کے خلاف قدم بڑھانے سے رک جائیں گے اور مسلمانوں کے درمیا ن شوریٰ قرار دو اور شوریٰ بھی اھل شام کی ھوگی نہ کہ اھل حجاز کی۔
بھرحال آپ کی فضیلت قریش میں سب سے پھلے اسلام لانے اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سب سے زیادہ قریبی ھونے میں کوئی کلام نھیں ھے ۔[34]
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کو جواب میں لکھا اس طرح لکھا:
امابعد! ایسے شخص کا نامہ میرے پاس پھنچا ھے جس کے پاس اتنی بصارت نھیں ھے کہ اسے ھدایت کی جاسکے اور نہ ھی اس کو نصیحت کر نے میں کوئی فائدہ ھے وہ تو اپنی خواھشات کے جال میں پھنس کر رہ گیا ھے اور یہ سوچتا ھے کہ عثمان کے معاملہ میں میں نے دھوکا دیا ھے ۔
مجھے اپنی زندگی کی قسم میں تو مہاجرین اور انصار میں سے ایک ھوں میں وہاں گیا ھوں جہاں وہ گئے ھیں میں نے وہ کیا ھے جو انھوں نے کیا ھے اور میں قاتلان عثمان کے ساتھ نھیں تھا اور تیرا یہ کھنا کہ اھل شام شوری بنائےں گے ۔بتاؤ شام میں کون ھے ؟جو خلافت کی صلاحیت رکھتا ھے؟اگر تم کسی کا نام لو گے تو مہاجرین و انصار تجھے جھٹلائےں گے، اور تیرا یہ اعتراف کرنا کہ میں سابق الاسلام ھوں اگر تو اس کے انکار پر قادر ھو تاتو یقینا اس سے بھی انکار کردیتا لیکن تم تو اس کے انکار سے عاجزھو، پھر آپ نے اصبغ بن نباتہ کو خط دیا اور لشکر سے دور ایک طرف چلے گئے۔[35]
اصبغ بن نباتہ کھتے ھیں کہ میں معاویہ کے پاس گیا تو اس کی دائیں جانب عمرو بن عاص اورذوالکلاع اور حوشب اس کے بائیں جانب اور اس کے ساتھ اس کا بھائی عتبہ بن عامر، ولید بن عقبی، عبدالرحمن بن خالد بن ولید، شرحبیل بن السمط اور ابو ھریرہ بیٹھے تھے اور اس کے سامنے ابو الدرداء، نعمان بن بشیر اور ابو امامہ باھلی بیٹھے تھے۔میں نے اسے خط دیا جب اس نے خط پڑھا تو کھنے لگا،
حضرت علی (علیہ السلام)عثمان کے قاتل ھمارے سپرد نھیں کرنا چاھتے اصبغ کھتے ھیں، میں نے کھا:معاویہ تو عثمان کے قاتلو ں کا مطالبہ نہ کر، تو توصرف حکومت اور سلطنت چاھتا ھے اگر تجھے عثمان سے کوئی محبت ھوتی تو اس کی زندگی میں اس کی مدد کرتا جب کہ تم نے اس سے آنکھیںپھیرلی تھیں اور اسے چھوڑدیاتھا یہ سب کچھ تیری دنیاداری کی وجہ سے ھے،یہ سن کر وہ غضبناک ھوا اور کچھ کرنے کا ارادہ ظاھر کیا۔
میں نے کھااے ابو ھریرہ تم تو خود کو رسول کا صحابی سمجھتے ھو، میں تجھے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ھوں جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور تجھے اس کے رسول بر حق کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوںکیا تو نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو حضرت علی کے حق میں غدیر خم پر یہ کھتے ھوئے نھیں سنا :
”من کنت مولاہ فعلی مولاہ “
جس جس کا میں مولا ھوں اس کے علی مولا ھیں۔
وہ کھنے لگا خدا کی قسم یقینا میں نے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے ۔
میں نے کھالیکن اب تم اس کے دشمن کو ولی سمجھ رھے ھو اور حقیقی ولی سے عداوت کرنے لگے ھو ،ابو ھریرہ نے لمبی اور ٹھنڈی سانس لی اور کہا:
انا لله و انا الیہ راجعون ۔
معاویہ کا چھرہ متغیر ھوگیااور کھنے لگا اب خاموش ھوجا،عثمان کے خون کے مطالبہ میں تو اھل شام کو دھوکا نھیں دے سکتا کیونکہ وہ شھر حرام اور حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حرم میں ،اپنی بیوی کے سامنے مظلومیت کے ساتھ ماراگیا،یھی وہ ھے جنھوں نے اسے دھوکا دے کر قتل کردیا اورآج ان کے نزدیک اسی کے مددگار و انصار اوردست بازو بنے ھوئے ھیں ،حضرت عثمان اس لئے نھیں قتل ھوا تھا کہ اس کا خون رائیگاں جائے۔[36]
جرجانی کھتے ھیں کہ معاویہ سب سے پھلے جرےر کو اپنے گھر لایا اور اس سے کھاجریر میری ایک رائے ھے ،جریر نے کھابیان کرو معاویہ نے کہا:
کہ تم اپنے مولاکو خط لکھو کہ وہ شام اورمصر میرے حوالے کردے اور اپنی وفات کے بعد کسی کو ھم پر مسلط نہ کرے تو میںسب کچھ تسلیم کرلونگا اور تم اسے خلافت کے متعلق لکھ دو۔
جریر کھتے ھیںجو جی چاھے لکھوجب حضرت امیرالمومنین کے پاس معاویہ کا خط پھنچا تو حضرت نے جرےرکی طرف اس کا جواب لکھا :
امابعد! معاویہ نے جو یہ ارادہ کیا ھے کہ جس کے بعد اس کی گردن پر بیعت کا قلادہ نھیں رھے گا اور اسے جو کچھ پسند تھا وھی لکھ دیا اور اس نے ارادہ کیا کہ وہ ھر چیز کا مالک بن بیٹھے اور اس کا ذائقہ اھل شام کو بھی چکھائے ۔مجھے مغیرہ بن شعبہ نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ھے کہ شام کی حکومت معاویہ کے سپرد کردی جائے جبکہ میں مدینہ میں ھوں اور اس نے اس بیعت کا انکار کردیا ھے اور اللہ مجھے نھیں دیکھ رھاکہ میں گمراھوں کو اپنے دست و بازو بناؤں بھرحال اگر یہ شخص بیعت کرتا ھے تو ٹھیک ورنہ تم وآپس آ جاؤ والسلام ۔[37]
جب حضرت علی علیہ السلام صفین کی طرف گئے تو معاویہ نے پھلے سے ھی پانی پر قبضہ جمالیا تھا اور حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب کو پانی کے قریب تک نہ آنے دیا حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر اور جناب صعصعہ بن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا۔
انھوں نے کھاتم ھمیں بھی اپنی طرح پانی استعمال کرنے دو۔ معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا تو ان میںولید بن عقبی کھتا ھے:ان پر پانی اس طرح بند رھنے دیا جائے جس طرح عثمان پر چالیس دن تک پانی بند تھا ، عبداللہ بن سعد کھتا ھے ان پر اس وقت تک پانی بند رھنے دیا جائے جب تک یہ ھماری طرف رجوع نھیں کرتے اور یھی ان کی کمزوری کا موجب بنے گا اور اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے ان پر پانی بند کردیا ھے۔
صعصعہ بن صوحان کھتے ھیں اللہ تعالیٰ نے تو قیامت کے دن تمہارے اور ولید بن عقبیٰ جیسے فاسق و فاجر پر شراب طھور کو حرام قرار دیا ھے یہ سن کر ولید گالیاں بکنے لگا۔ صعصعہ بن صوحان کھتے ھیں اللہ تم سب پر لعنت کرے پھر وہ اس لشکر سے نکل کر اپنے لشکر کی طرف چل دئے ۔[38]
عمر ابن عاص، معاویہ سے کھتا ھے ان کے لئے پانی کی بندش ختم کردو دیکھتے نھیں ھو کہ ابن ابی طالب پیاس سے نڈھال ھو رھے ھیں اور ان کے ساتھ عراق کے دوسرے بزرگ مہاجرین و انصار بھی ھیں خدا کی قسم ھم نے اس سے پھلے اتنے بزرگ اس طرح اکٹھے نھیں دیکھے تم پانی بند کرنے والا غلط کام نہ کرو اور خود کومصیبت میں نہ ڈالو۔
لیکن معاویہ نے انکار کردیا وہ کھنے لگا خدا کی قسم یہ ان کی پھلی کامیابی ھے اللہ تبارک وتعالی ابو سفیان بن حرب کو حوضِ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے ایک قطرہ بھی نصیب نہ ھوگا ۔
اس وقت فیاض بن حرث ازدی معاویہ سے مخاطب ھو کر کھتا ھے:
اے معاویہ خدا کی قسم آج تم نے انصاف نھیں کیا اگر آج رسول ھوتے تو ان پر پانی بند نہ کیا جاتا جبکہ ان پر کس طرح پانی بند کیا جارھاھے حالانکہ یہ اصحاب رسول ھیںان میں بدر کے غازی ،مہاجر اور انصار بھی موجود ھیں ان میں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا زاد، ان کے بھائی ،ان کے رازدار،اور ان کے حبیب اور دوست موجود ھیں۔
اے معاویہ کیا تو اللہ سے نھیں ڈرتا خدا کی قسم یہ بھت بڑی بغاوت ھے ، خدا کی قسم اگر وہ تم سے پھلے پانی پر پھنچ جاتے تو یقینا تم پر پانی بند نہ کرتے یہ کھتے ھوئے وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لشکر کی طرف چل پڑا ۔[39]
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے معاویہ کی طرف عبداللہ بن بدیل الخراعی کو بھیجا اسی شخصیت نے حضرت عمر کی خلافت کے دوران اصفہان کو فتح کیا تھا، حضرت نے اس سے کھاکہ معاویہ سے کھنا ،اگر ھم تم سے پھلے پانی پر پھنچتے تو تم لوگوں پر پانی بند نہ کرتے، تمہارے لئے پانی کی بندش کا حکم دینا حرام ھے تم حضرت رسول خدا (ص)کے اصحاب کو پانی پینے کی اجازت دو تاکہ وہ پانی سے سیراب ھو سکیں یہاں تک کہ ھمارے درمیان کوئی معاملہ طے ھو۔
بھرحال جنگ شدید ھو گی بعید نھیں ھے کہ شھرالحرام میں جنگ ھو جائے لیکن معاویہ اپنی بات پر اٹل رھااورمعاویہ نے حضرت کو کھلوا یاکہ عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کر دو تاکہ میں ان کو قتل کر دوں۔ عبداللہ نے معاویہ سے کھا،کیا تو یہ سوچ رھاھے کہ حضرت علی( علیہ السلام) پانی لینے سے عاجز ھیں ایسا ھرگز نھیں ھے وہ تو صرف اتمام حجت کررھے ھیں ۔[40]
لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خون بہانے کا معاملہ بھت بڑا ھے اسی وجہ سے میں نے ایک کے بعد دوسری مرتبہ اتمام حجت کی ھے۔
میں نے انصار اور غیر انصار میں سے مختلف لوگوں کو اس کی طرف بھیجا ھے تاکہ حجت تمام ھوجائے یہ لوگ اس کے پاس گئے اور اس سلسلے میں اس سے بات چیت کی یہ لوگ اس کے پاس پھنچ کر اس سے کھنے لگے ۔اے معاویہ اس سے پھلے کہ ھم تلوا کے زرو کے ساتھ تجھ سے پانی حاصل کر لیں تو خود ھی ھم پر پانی آزاد کردے اس نے کھاکل بھی میرے پاس تمہارا پیغام رساں آیا تھا اور آج یہ گروہ میرے پاس آگیا ھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ پھر معاویہ کے پاس اپنے دس بزرگ اصحاب کو بھیجا تاکہ وہ پانی کے متعلق اس سے بات چیت کریں اس موقع پر سلیل نامی شاعر نے یہ اشعار کھے:
اِسمع الیوم مایقول سلیل
اِنّ قولي قولٌ لہ تاٴویل
اِمنع الماء مِن صحاب علي
لا یذوقوہ و الذلیلُ ذلیل
سنو آج سلیل نے جو کچھ کیا ھے اسے بیان کررھاھے میری یہ گفتگو ان کے لئے ھے نہ جانے وہ اس کی کیا تاویل کریں گے علی (ع)کے اصحاب پر پانی بند کردیا گیا اور وہ ایک گھونٹ پانی بھی نہ پی سکے بھرحال ذلیل تو ذلیل ھی ھوتا ھے۔[41]
اشعث بن قیس حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آ کر عرض کرتا ھے یا امیرالمومنین کیا ھم پیاس سے مر جائیں ؟آپ نے تو اس سلسلے میں ھمیں تلوار اور نیزے اٹھانے سے بھی منع کردیا ھے ،خدا کی قسم میں فرات پر قبضہ کیے بغیر واپس نہ پلٹوں گا ۔اس کے بعد مالک اشتر بھی آئے (حضرت امیر ا لمو منین علیہ السلام اپنی طرفسےجنگ کا آغاز نھیں چاھتے تھے)جب سارا لشکر جمع ھو گیا اور انھوں نے اپنی تلواریں اپنی گردنوں پر رکھ لیں اشتر اور اشعث بارہ ہزار کے لشکر سے آگے بڑھے اور معاویہ کی طرف سے ابوالاعور اٹھارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ آگے بڑھا اور دیکھتے ھی دیکھتے یہ فرات پر جا پھنچے۔[42]
ابوہانی بن معمر سدوسی کھتے ھیں کہ اس وقت میں اشتر کے ساتھ تھا اس پر پیاس کے آثار نمایاں تھے اس نے اپنے چچازاد بھائی سے کھاھمارے امیر پیاسے ھیں ،اس نے کھاکہ سب لوگ پیاسے ھیں۔
میرے پاس پانی کے کچھ برتن موجود ھیں لیکن میں نے انھیں اپنی ذات کے لئے حرام قرار دے رکھاتھا اس نے یہ مالک اشتر کے حوالے کئے اس نے اورپانی پیش کیا انھوں نے کھاجب تک دوسرے لوگ پانی نہ پئیں گے میں نھیںپےؤں گا ۔اسی اثنا میں ابی عور کے ساتھی قریب ھوئے اور انھوں نے تیر اندازی شروع کر دی ۔
اے لوگو! صبر کرو، پھر انھوں نے ابی اعور کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا ۔ تیروں کا آمنا سامنا ھوا اور ان کے سات آدمی مارے گئے ان میں سب سے پھلا شخص صالح بن فیروزا لعکّی تھا جو بڑا شجاع مشھور تھا اشتر نے اپنا گھوڑا دریائےِ فرات میں داخل کیا اور انھوں نے اشعث پر حملہ کرکے پانی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ [43]
جب حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اصحاب نے فرات پر قبضہ جما لیا اور شامیوں کو اس سے دور بھگا دیا معاویہ نے حضرت امیر علیہ السلام کے پاس ۱۲آدمیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا یہ لوگ حضرت علی علیہ اسلام کے پاس گئے ان میں سے پھلے حوشب کھنے لگا ۔
آپ نیک اور پاکیزہ نفس کے مالک ھیں ھمیں پانی فراھم کیجئے اور جو کچھ معاویہ نے کیا ھے اسے فراموش کر دیجئے۔ان شامیوں میں سے ایک شخص جسکانام مقاتل بن زید العکّی تھا وہ کھنے لگا ۔
اے امیرالمومنین امام المسلمین رسول دو عالم کے چچاذاد بھائی! معاویہ عثمان کے خون کے معاملہ میں دھوکہ بازی سے کام لے رھاھے اسے صرف اور صرف بادشاھت کی چاھت ھے وہ بہانہ بنا کر بادشاھت اور حکومت کے حصول کے کوشش میں لگا ھے۔
خدا گواہ ھے کہ اگرچہ میں شامی ھوں لیکن آپکا محب ھوں خدا کی قسم میں معاویہ کی طرف لوٹ کر نہ جاؤں گا بلکہ یہاں آپ کی خدمت کروں گا اور جنگ کی صورت میں، میںآپکی طرف سے ان کے سا تھ جنگ کرنے والا پھلا شخص ھوں گا اور جلد ھی آپ کے سامنے جام شہادت نوش کروں گا کیونکہ آپ کی اطاعت میں جان دینا شہادت کی موت ھے ۔
اسکے بعد حضرت امیرلمومینین حضرت علی ابن ابی طالب نے اس انداز سے تکلم فرمایا۔ جاؤ اور معاویہ سے کھو! جتنا چاھو پانی پیئو اور اپنے حیوانات کو سیراب کروپانی کے معاملہ میںتمھیں کوئی نہ روکے گا اور کوئی بھی تم پر پانی بند نھیںکرے گا[44]
جب حضرت امیرالمومنین علیہ اسلام نے جنگ صفین میں پانی پر غلبہ پا لیا اور آپ نے اھل شام کے ساتھ فیاضی اور بخشش کا سلوک کیا آپ نے کچھ دن معاملہ اسی طرح رھنے دیا، نہ تو آپ نے کسی کو معاویہ کے پاس بھیجا اور نہ ان کی طرف سے کوئی آیا تاکہ اھل شام کے دل نرم پڑ جائیں ۔
اھل عراق نے آپ سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی اور کھنے لگے :بعض لوگ گمان کرتے ھیں کہ آپ جان بوجھ کر جنگ سے کترا رھے ھیں اور آپ کو اپنی زندگی کی فکر ھے اور بعض لوگوں کا خیال ھے کہ اھل شام کے ساتھ جنگ کرنے میں آپ کسی شک میں مبتلا ھیں۔
حضرت نے ارشاد فرمایامیں اور جنگ سے کتراؤں !
تعجب کی بات تو یہ ھے کہ میں جب جوان تھا تو مجھے زندگی کی فکر نہ تھی اب اس بڑھاپے میں زندگی کی کیا فکر، میں اپنی زندگی گزار چکا ھوں۔ میرا آخری وقت بھی قریب آ چکا ھے ! اب میں موت سے کیا ڈروں گا؟ نھیں ایسا ممکن نھیں ھے۔
اور جہاں تک اس قوم کے متعلق شک کا تعلق ھے آپ کو ان کے متعلق شک ھے اور مجھے اھل بصرہ کے متعلق شک ھے خدا کی قسم میں نے اس معاملہ کے ظاھر اور باطن دونوں کو ان کے سامنے پیش کیا ھے تو مجھے اس کے علاوہ کچھ اور معلوم نھیں کہ یا جنگ کریں یاا للهاور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کریں ۔
میں اس قوم کو یہ بتا دینا چاھتا ھوں کہ عنقریب ان میں سے ایک گروہ یا میری اطاعت کرے گا یا اسی کی !جبکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن مجھ سے فرمایا تھا :
لان یھدی ا لله بک رجلاواحدا خیرلک مما طلعت علیہ الشمس۔
اگر اس کائنات میں الله تعالی آپ کے ذریعے ایک شخص کو بھی ھدایت یافتہ بنا دے تو یہ ھر اس چیز سے بھتر ھے جس پر خورشےد طلوع ھوتا ھے۔ [45]
جب حضرت علی علیہ السلام نے پانی حاصل کر لیا تو اس وقت فردی اور گروھی جھڑپےں جاری رھیں بعض موت کے خوف سے ایسے بھاگے کہ پھر واپس نھیں آئے۔ بھرحال ذوالحجہ کے آخر تک اسی طرح جنگ کا سلسلہ جاری رھاجب محرم الحرام کا مھینہ آگیا دونوں طرف سے ایک نیک مھینے میں جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ایلچیوں کی رفت وآمد شروع ھو گی۔
حضرت امیرعلیہ السلام نے یزید بن قیس ارحبی کو معاویہ کی طرف بھیجا انھوں نے معاویہ سے کہاھم تیرے پاس اس لیے آئے ھیں تاکہ تمھیںاس چیز سے آگاہ کریں جس کے لیے ھمیں بھیجا گیا ھے آپ ھماری بات غور سے سنیں البتہ مجھے آپ لوگوں کو نصیحتیں کرنے کے لیے نھیں بھیجا گیا۔
بھرحال ھم تجھے تذکر دینے آئے ھیںتاکہ تم پر حجت تمام ھو جائے اور ھم تیرے پاس الفت و محبت کا پےغام لے کر آئے ھیں ھمارے سردار وہ ھیں جنھیں کون ھے جو نھیں جانتا تم اور تمام مسلمان اس کے فضل و کمال سے آگاہ ھو اور میرے خیال میں اس کے فضیلت تمہارے اوپر مخفی نھیں ھے۔
اھل دین اور اھل فضل تجھے حضرت علی (ع) کے برابر نھیں سمجھتے اور تجھے ھر گز ان سے بلند وبالا نھیں سمجھتے۔اے معاویہ اللهسے ڈرو اور علی (ع) کی مخالفت نہ کرو۔
خدا کی قسم ھم نے اس دنیا میں ان سے بڑا متقی اوران سے بڑا زاھد کسی اور کو نھیں پایا۔ساری کائنات کی تمام نیکیاںصرف اور صرف اسی کی ذات میںموجود ھیں۔
امابعد! تم نے اطاعت اور جماعت کی دعوت دی ھے جہاں تک جماعت کا تعلق ھے تم نے دعوت دی ھے یہ تو ٹھیک ھے لیکن جہاں تک تمہارے دوست کی اطاعت کا تعلق ھے میں اسے تسلیم نھیں کرتا آپ کے سردار نے ھمارے خلیفہ کو قتل کیاھے،ھماری جماعت میں تفرقہ ڈالا ھماری خواھشات کو پامال کیااور پھر تمہارے سردار کھتے ھیں کہ میں نے اسے قتل نھیں کیا ھم لوگ اسے تسلیم نھیں کرتے ۔
کیا تم نے ھمارے سردار کو قتل ھوتے ھوئے دیکھا تھا؟ کیا تم نھیں جانتے تھے کہ وہ سب تمہارے سر دار کے افراد تھے؟ آپ انھیں ھمارے پاس بھیجئے ھم انھیں قتل کرنا چاھتے ھیں۔
ھم تم سے زیادہ اطاعت اور جماعت کے حقدار ھیں۔شبث بن ربعی نے معاویہ سے کہا: معاویہ تو نھیں جانتا کہ عمار کے متعلق حضرت رسول (ص)خدا نے کیا کھاھے؟ اور پھر تم نے اس کو قتل کیا ھے! معاویہ نے کھاکہ مجھے اس کو قتل کرنے سے کوئی نھیں روک سکتا۔
خدا کی قسم اگر میرے لیے ممکن ھوتا کہ تمہارا سردار ابن سمیہ (سمیہ بن حنباط عمار بن یاسر کی مادر گرامی پھلی خاتون شھیدہ ھیں) کا فرزند ھے تو پھر میں اس کو عثمان کے بدلے میں قتل نہ کرتا لیکن آپ لوگوں نے ھمارے سردار عثمان بن عفان کو قتل کر دیا۔ شےث نے کھاآسمانوں کے رب کی قسم تم نے عدل و انصاف سے کام نھیں لیا مجھے اس با برکت ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں۔ تم نے ابن یاسر کو قتل کر کے لوگوں کی تلواروں کو باھر نکلنے پر مجبور کیا ھے۔[46]
حضرت علی(ع) کی ھمےشہ یہ سیرت رھی ھے کہ وہ تمام حالات میں محارم خدا سے پرھےز گاری اور تقوی اختیار کرتے تھے اس چیز کا آپ کے دشمن بھی واضح طور پر اعتراف کرتے ھیں ۔آپ کبھی بھی اچانک جنگ شروع کر دینا پسند نھیں کرتے تھے۔نصر بن مزاحم اپنی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ھیں جب محرم ختم ھوا حضرت علی(ع) نے مرثد بن حارث جشمی کو حکم دیا اور انھوں نے سورج ڈوبنے کے وقت آواز دی کہ اے شام والو آگاہ ھو جاؤ کہ امیرلمومنین آپ سے فرما رھے ھیں:
تم حق کی طرف پلٹ آؤ اور اس کی طرف رجوع کرو اور میں نے تم پر الله کی کتاب حجت کے طور پر پیش کر دی ھے اور تمھیں الله کی کتاب کی طرف دعوت دی ھے لیکن پھر بھی تم لوگوں نے سر کشی کو نہ چھوڑا اور حق کو قبول نہ کیا اور میں نے تم پر واضح کر دیا ھے کہ الله تعالی خیانت کرنے والے کو پسند نھیں کرتااس کے بعد نصر بن مزاحم کھتے ھیں :
نبذ سے مراد یہ ھے کہ دو گروھوں کے درمیان جنگ کے سلسلے میں ایک معاھدہ صلح ھونا جسے جنگ سے پھلے وہ توڑ ڈالےں ۔[47]
عبدالله بن جندب اپنے والد سے روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا جب جنگ میں دشمن سے تمہاراآمنا سامنا ھو تو اس وقت تمہاری ذمہ داری یہ ھے کہ۔
جب تک دشمن جنگ شروع نہ کر دے تم پھل نہ کرنا کیوں کہ تم الحمدالله دلیل و حجت رکھتے ھو اور تمہارا انھیں چھوڑ دینا کہ وھی پھل کریں یہ ان پر دوسری حجت ھو گی اور جب تمہارے جوابی حملہ سے دشمن بھاگ کھڑا ھو تو پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اورکسی زخمی کی جان نہ لینا۔
ان کا لباس نہ اتارنا، مرنے کے بعد ان کا مثلہ(ناک اور دوسرے اعضاء کاٹنا) نہ کرنا اور جب تم اس قوم کے مرکز میں پھنچ جاؤ انھیں مزید شرمندہ نہ کرنا اور ان کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل نہ ھونا انکے گھروں سے کسی چیز کو نہ اٹھانا لیکن میدان جنگ میں جنگی ھتھیار لے سکتے ھو۔
ان کی عورتوں کو اذیت نہ پھنچا نا اگرچہ تمھیں وہ برا بھلا کھیں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں کیونکہ وہ جان، قوت اور عقل کے اعتبار سے ضعیف اور کمزور ھوتی ھیں ھمیں (پیغمبر اسلام(ص) کے زمانہ میں بھی) یہ حکم تھا کہ ان سے کوئی تعرض نہ کریں حالانکہ وہ مشرک ھوتی تھیں اگر جاھلیت میں بھی کوئی شخص کسی عورت کو پتھر یا لاٹھی سے گزند پھنچاتا تو اس کی اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کو مطعون سمجھا جاتا تھا۔[48]
حضرمی کھتے ھیں کہ میں نے حضرت علی(ع) کو جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نھروان کے موقع پر وعظ کرتے سنااور آپ نے فرمایا۔
الله کے بندو الله سے ڈرو اپنی آنکھیں نیچی رکھو اپنی آوازیں بلند نہ کرو اور کم بولو خود کو جنگ، مقابلہ، مبارزہ اور معانقہ کے لیے آمادہ رکھو، اور ثابت قدم رھو اور کثرت سے الله کا ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ، جنگ میں کسی سے پھل نہ کروتاکہ تمھیں اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ھونا پڑے۔ صبر وتحمل سے کا م لو کیونکہ الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ھے پھر یہ دعا فرمائی پروردگار! ھمیں صبراور نصرت اور اجر عظیم عنایت فرما ۔[49]
نصر بن مزاحم اپنی سند سے روایت بیان کرتے ھیں تو حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ کون ھے جو اس قوم کے پاس قرآن لے کرجائے جو انھیں سمجھائے؟ توایک نوجوان آگے بڑھا جس کا نام سعد بن قیس تھا اس نے کھامیں جاوٴں گا حضرت نے پھراس بات کو دھرایا۔
دوسرے لوگ خاموش رھے اس نوجوان نے کھامیں جاوٴں گا۔حضرت(ع) نے فرمایاکیا تیرے سوا کوئی اور نھیں؟!! وہ جوان معاویہ کے پاس آیا اور اس نے چنا نچہ معاویہ کو قرآ ن سنایا اور اسے قرآن کی طرف دعوت دی لیکن معاویہ نے اسے قتل کردیا۔
اس وقت حضرت علی(ع) نے عبدالله بن بدیل خزاعی سے کھااب ان پر حملہ کر دو چنا نچہ سب نے حملہ کر دیا۔[50]
نصر بن مزاحم اپنی سند سے کھتے ھیں کہ ھم جنگ صفین میں حضرت علی(ع) کے ساتھ موجود تھے اس وقت عمر وبن عاص کھڑا ھوا اس نے سیاہ کپڑے کو نےزے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ لوگوں نے کھایہ حضرت رسول (ص)خدا کے پرچم کا ایک حصہ ھے وہ اس طرح باتیں کرتے ھوئے حضرت علی (ع) کے پاس پھنچ گئے۔
حضرت نے فرمایا کیا تم اس چادر کے متعلق جانتے ھو بے شک عمرو الله کا دشمن ھے اسے الله کے رسول(ص) نے اسے چادر کے حصے کے ساتھ نکال دیا تھا حضرت نے اس سے پوچھا تھا اسے کہاں سے لیا تھا؟۔
عمرو نے کھاتھا یا رسول(ص) اس سے کیا ھوتا ھے؟۔
حضرت نے فرمایا: اسے لے کر (اسے پھن کر ) مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنااور کافروں کا تقرب حاصل نہ کرنا بس اس نے وہ لے لیا۔
لیکن بے شک وہ مشرکوں کے قریب ھو گیا ھے اور آج مسلمانوں سے جنگ کرنے پر آمادہ ھے مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزوں کو پیدا کیا وہ کبھی بھی مسلمان نہ ھوئے انھوں نے تو صرف اسلام کا اظہار کیا ھے۔
اور کفر اُن کے اندر پوشیدہ طور پر موجود ھے جب یہ کافروں میں سے کسی کو اپنا مدد گار اور معاون پاتے ھیں تو اپنے کفر کا اظہار کردیتے ھیں۔[51]
نصر بن مزاحم کھتے ھیں کہ زید بن ارقم معاویہ کے پاس گئے اس وقت اس کے قریب عمر بن عاص کرسی پر بیٹھا ھوا تھا جب زید نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان حائل ھوگیا یہ دیکھ کر عمرو بن عاص کھنے لگا۔
تم دیکھ نھیں رھے ھوکہ ھم اکٹھے بیٹھے ھیں تو میرے اور میرے امیر کے درمیان آکر بیٹھ گیا ھے ھمارے درمیان سے اٹھ جا، زید نے کھاکہ ایک جنگ میں، میں حضرت رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا آپ دونوں اسطرح اکٹھے بیٹھے ھوئے تھے حضرت رسول خدا(ص) نے گھری نظروں کے ساتھ آپ کو دیکھا اور پھر دوسرے اور تیسرے دن بھی اسی طرح دیکھا اور نظریں جما کر تمھیں دیکھنے لگے اورارشاد فرمایا کہ جب تم معاویہ اور عمرو ابن عاص کو کبھی اسطرح اکٹھا بیٹھے ھوئے دیکھو تو فورا انھیں جدا کر دینا کیوں کہ یہ دونوں کبھی بھی خیر پر(اس طرح) اکٹھا نھیں بیٹھ سکتے۔[52]
عبدالله بن عمر کھتے ھیں معاویہ جھنم کے نچلے درجے میں دردناک عذاب میں ھوگا اگر فرعون یہ کلمہ نہ کھتا کہ اٴناربکم الاٴعلیٰ (میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ھوں) تو جھنم میں معاویہ سے پست درجہ کسی اور کو نہ ملتا۔[53]
اس طرح عبدالله بن عمر کھتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت رسول(ص)نے ابو سفیان کو دیکھا کہ وہ مرکب پر سوار ھے اور معاویہ اور اس کا ایک بھا ئی ساتھ ھے ان میں سے ایک لگام پکڑے کھڑا ھے اور دوسرا اس کے پیچھے کھڑا ھے۔ جب حضرت کی ان پر نگا ہ پڑی تو حضرت نے ارشاد فرمایا :
اللّھم اللعن القائِد والسائق والراکب۔
پروردگاراکھڑے ھونے والے، لگام پکڑنے والے اور سوار‘ تینوں پر لعنت فرما۔[54]
اورحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کے ساتھ آھستہ آھستہ اھل شام کی طرف روانہ ھوئے تو انھوں (اھل شام)نے تیر پھینک کر جنگ کا آغازکیا اس وقت آپ نے ہاتھ اٹھاکر بارگاہ خدا وندی میں عرض کی:
پروردگارا ! ھمیں اپنے دشمن پر نصرت فرما، ھمیںان باغیوں سے نجات دے اور حق کی نصرت فرما،اور اگر انھیں کامیابی مل جاتی ھے تو ھمیں شہادت کے درجے پر فائز کردے اور میرے اصحاب کو اس فتنہ سے نجات دے۔[55]
نصر،زید بن وھب سے روایت کرتے ھیں کہ جنگ صفین میں میںنے حضرت کو دیکھا کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ میسرہ کی طرف جارھے تھے میں نے دیکھا کہ تیر آپ کے کاندھوں اور شانوں سے گذر رھے تھے ،جن کو دیکھ کر آپ کے فرزند ان تیروں کو روکتے تھے، آپ نے ان کو منع فرمایا اس وقت بنی امیہ کا ایک بھادر غلام احمر نکل کر آیا اور کھنے لگا : یا علی اگر میں تم کو قتل کروں تو خدا مجھے قتل کردے،یا آپ مجھے قتل کردیں ۔
یہ سن کر امام علیہ السلام کے خادم کیسان نے اس پر حملہ کیا لیکن اس کو احمر نے قتل کر دیا اس کے بعد علی علیہ السلام احمر کے نزدیک گئے تاکہ اس پر تلوار سے وار کریں،لیکن احمر نے آپ کی ھیبت کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ ذرہ میں رکھ لئے، اس وقت حضرت امیر (ع)نے اس کو پکڑ کر اوپر اٹھالیا۔
راوی کھتا کہ میں نے دیکھا کہ احمر کے دونوں پیر حضرت کے شانوں کے قریب ھو ا میں لٹکے ھوئے تھے،حضرت نے کچھ دیر اس کواسی طرح لٹکائے رکھا اور پھر زمین پر دے مارا،جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے اس کے بعد امام حسین (ع) اور محمد بن حنفیہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو قتل کر ڈالا ۔اس کے بعد اھل شام حضرت کے قریب ھونے لگے لیکن حضرت آرام سے چلتے رھے اور موقع پر حضرت امام حسن علیہ السلام نے کھا: بابا آپ نھیں دیکھ رھے ھیں کہ دشمن آپ کی طرف حملہ کے لئے بڑھ رھے ھیں ۔
تب آپ نے فرمایا:اے بیٹا تمہارے باپ کے لئے ایک دن معین ھے جس پر جلدی کرنے سے کوئی اثر نھیں پڑتا اے بیٹا تمہارے باپ کو اس کا غم نھیں کہ موت ان پر آن پڑے یا وہ موت پر جا گریں۔ [56]
جنگ صفین میں حضرت علی (ع)نے اپنے ہاتھ میںعصا لے رکھا تھااور آپ کا گزر سعیدبن قیس ھمدانی کی طرف ھوا وہ عرض کرنے لگا یا امیرالمومنین (ع) کھیں کوئی آپ کو دھوکا دے کر نقصان نہ پھنچادے جبکہ آپ دشمن کے قریب ھوتے جا رھے ھیںتو اس وقت حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا:
جب تک خدا کی مرضی نہ ھو تو کسی کی جراٴت نھیں کہ میرا بال بھی بیکا کر سکے جب تک میں الله کی حفاظت میں ھوں کوئی اس وقت تک مجھ پر پس پشت سے حملہ نھیں کر سکتا اور مجھ پر دیوارنھیں گرا سکتا یا مجھ پر آفت و مصیبت کا پہاڑ نھیں توڑ سکتا۔ ہاں شب قدر میں ایسا ھوگا ۔[57]
جابر جعفی روایت بیان کرتے ھیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام میدان جنگ کی طرف نکلنے لگے تو آپ نے سوار ھونے سے پھلے ذکر خدا کیا اور ارشاد فرمایا:
الحمدُ اللهعلیٰ نعمہ علینا وفضلہِ <سبحان الذي سخّرلنا ھذاوما کُنّا لہ مقَرنین اِنّا اِلیٰ ربِّنا لمنقلبون۔>
تمام حمد و ثناء خدا وند متعال کے لئے سزاوار ھے جس نے ھمیںنعمت اور فضیلت عطا کی ھے ۔ اور وہ ایسی پاک و پاکیزہ ذات ھے جس نے اس کائنات کو ھمارے لیے مسخر فرمایا اور کوئی بھی اس کا مقابلہ کرنے والا نھیں ھے اور ھمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ھے ۔
پھر آپ نے قبلہ رخ ھو کر اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے بلند کر کے فرمایا:
اللُّھم اِلیک نقلت الاٴَ قدام واٴتعبتُ الاٴبدان واٴفضتُ القلوب ورفعتُ الایدي وشَخَصتُ الابصارُ < ربنا افتح بیننا وبین قومِنا بالحقِّ و اٴنتَ خیرُالفاتحین۔>
پروردگار ھمارے قدم تیری جانب رواں دواں ھیں اور بدن تیرے حکم کے تابع ھیں۔ دل تیری طرف راغب ھیں اور ہاتھ تیری بارگاہ میں بلند ھیں اور آنکھیں تیری جستجو میں ھیں، پروردگار! ھمیں اس قوم پر حق کے ساتھ فتح نصیب فرما بے شک تیری ذات ھی بھترین فتح عطا کرنے والی ھے۔
پھر ارشاد فرمایا: الله کی برکت سے قدم بڑھا،اور چلتے ھوئے آپ یہ ورد کر رھے تھے:
اللهُاٴکبر اللهاٴکبر لاالٰہ اِلاّالله الله اٴکبرُ یا الله یااٴحد یا صَمد یا رب محمدّ اٴکفف عنا باٴس الظالمین ۔
الله تو سب سے بڑا ھے ۔وھی اکبر ھے۔ اے اللہ تیرے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے۔ اے الله، اے احد، اے بے نیاز ذات، اے محمدکے رب، ظالموں کے ظلم و اذیت کو ھم سے دور فرما۔
اورپھر فرمایا:<الحمدُ لله ِربِّ العالمین الرحمٰن الرحیم مالکِ یوم الدین اِیاّک نعبد واِیاکَ نستعین> بسم الله الرحمن الرحیم ولا حوَلَ ولا قوّة اِلابالله العليّ العظیم۔
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیں جو عالمین کا رب، رحمن اور رحیم ھے نیز آخرت کا مالک ھے ھم صرف اس کی عبادت کرتے ھیں اسی سے مدد طلب کرتے ھیں الله کے نام سے شروع کرتے ھیں تمام طاقت و قوت اسی علی اور عظیم ذات کے لیے ھے ،راوی کھتا ھے صفین میں یھی کلمات حضرت کا شعار اور نعرہ تھے۔[58]
جب جنگ صفین میں دونوں طرف سے کافی لوگ قتل ھو گئے تو حضرت علی(ع) نے میدان صفین میں کھڑے ھو کر باآواز بلند پکارا :معاویہ معاویہ، آپ نے کئی بار اس کو تکرار کیا، معاویہ نے کھاکیا کھنا چاھتے ھو حضرت نے فرمایا: توخود میرے ساتھ جنگ کے لیے آجا تاکہ معاملہ تمام ھو جائے ۔
چنانچہ جب آپ نے معاویہ کو جنگ کے لئے طلب کیا۔ اس کے ساتھ عمرو بن عاص بھی تھاجب وہ دونوں حضرت کے قریب آئے تو حضرت نے عمرو کی طرف توجہ کئے بغیرمعاویہ سے کھاتیرے لیے ھلاکت ھو تو دیکھ نھیں رھاکہ کتنے لوگ مارے جا چکے ھیںبھتر ھے تاکہ میرے اور تیرے درمیان جنگ ھو جائے جو دوسرے کو قتل کر دے وہ خلافت کا مالک بن جائے، معاویہ نے عمر وسے پوچھا اس بارے تیراکیا مشورہ ھے؟
عمرو نے کہاعلی (ع)نے انصاف سے کام لیا ھے، بھر حال اگر تو میدان میںنکلے تو تجھے کوئی نھیں مار سکتا اس زمین پر رھنے والے سب عرب تیری پشت پر ھیں (یعنی تم حضرت علی (ع)کا مشورہ مان لو)معاویہ نے کھااے ابن عاص مجھ جیسا شخص اپنے آپ کو دھوکا نھیں دے سکتا۔ خدا کی قسم علی ابن ابی طالب(ع) جیسے شجاع شخص کے ساتھ مقابلہ کرنے کبھی نہ نکلوں گا یہ تو میرے خون سے زمین کو سیراب کر دے گا۔
اس کے بعد معاویہ عمرو عاص کے ساتھ وہاں سے بھاگ گیا اور لشکر کی آخری صفوں میں پھنچ گیا۔جب حضرت نے اسے آخری صفوں میں جاتے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور اپنی جگہ واپس آگئے۔[59]
اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ھیں کہ ایک شخص حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کرنے لگا یاامیرالمومنین جس قوم کے ساتھ ھم جنگ کر رھے ھیںان کا اور ھمارا دین ایک ھے رسول ایک، نماز ایک اور حج ایک ھے تو پھر ھمارا جھگڑا کس چیز میں ھے؟ لہٰذا ھم انھیں کس نام سے پکاریں؟تب حضرت نے فرمایا:
ھم انھیں وھی کچھ کھیں گے جو الله نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ھے اور جو کچھ الله کی کتاب میں موجودھے میں سب کو جاننے والا ھوں،پھر اے نوجوان کیا تم نے الله کے اس فرمان کو ملاخطہ نھیں کیا جس میں الله ارشاد فرماتا ھے:
”تلکَ الرُسُل فضّلنا بَعضَھم علیٰ بعضِ۔۔۔“ سے لے کر ”ولو شاءَ اللهُ ما آقتتل الذین من بعد ھم مِن بعد ما جاء تھُم ۔البیناتُ ولکن اِختلفوا فمنھم من آمن و منھم من کفر۔“[60]
یہ سب رسول جو ھم نے بھیجے ھیں ،ان میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ھے۔۔ ۔ اگر خدا چا ھتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد واضح اور روشن معجزے آ چکنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے مگر ان میں اختلاف پیدا ھو گئے۔
ان میں بعض تو صاحب ایمان رھے اور بعض کافر ھو گئے اور جب یہ اختلاف پیدا ھو گیا تو ھم الله اسکی کتاب اور اس کے نبی کے زیادہ قریب ھیں۔ھم ایمان والے ھیں اور وہ کفر کرنے والے ھیںاور الله نے چونکہ یھی چاھاھے کہ ھم ان( کافروں) سے لڑیں لہٰذا ھماری یہ جنگ کرنا مشیت ایزدی اوراللہ کے ارادے کے عین مطابق ھے ۔[61]
محمد ابن اسحاق اپنی سند سے روایت بیان کرتے ھیں کہ عمرو ابن عاص کو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کے ایک صحابی حارث بن نضر جثعمی سے بڑی عداوت تھی حضرت علی (ع)نے اپنے اس صحابی کو شام کے بڑے لوگوں سے متعارف کروایا تھا اور ان کے دلوں میں اس کی شجاعت کا رعب و دبدبہ تھا ھر شخص اس کے سامنے آنے سے بچتا تھا اور عمرو جس جگہ بھی جاتا تھا وہاں حارث بن نضر کے چرچے سنتا تھا۔
حارث نے اس سلسلے میں کچھ اشعار کھے اور یہ اشعار زبان زد عام ھو گئے جب ان کی خبر عمرو کو ھوئی تو وہ خدا کی قسم کھا کر کھنے لگا اسے یہ اشعار علی ابن ابی طالب(ع) نے سکھائے ھیں۔بھرحال خدا مجھے ہزار مرتبہ بھی موت دے تب بھی تلواریں آپس میں ضرور ٹکرائیں گی لہٰذا اس نے اپنے نیزے سے اس پر حملہ کر دیا،اس جانب حضرت علی (ع)آ نکلے انھوں نے تلوار اور صقیل شدہ و نیزہ اٹھا رکھا تھا جب اس نے دیکھا تو اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی تاکہ آگے بڑھ جائے اور (خوف کی وجہ سے) عمر وگھوڑے سے زمین پر آ گرا اور دونوں پاؤں پھےلادئےے اور ننگا ھو گیا۔ حضرت اپنا چھرہ چھپاتے ھوئے اس سے آگے نکل گئے۔ اس دن سے لوگوں کے درمیان اس کی یہ حالت ضرب المثل بن گئی اس واقعہ پرحارث بن نضر خثعمی نے یہ اشعار کھے:
اٴفیِ کل یومٍ فارس لکَ ینتھي
وعورتُہ وسط العجاجة بادیہ
ےکف لھا عنہ عليٌ سِنانہ
وےضحک منھا في الخلاءِ معاویہ
بدت اٴمس مِن عمرو فقنّع راٴسہ
وعورةُ بُسرٍ مَثلھا حذو حاذیہ
فقولا لعمروٍ ثم بُسرٍ اٴلاانِظُرا
لنفسکما لا تلقیا اللیث ثانیہ
ولاتحمدا اِلاّ الحیا وخصاکما
ھما کانتا والله للنفسِ واقیہ
کیا ھر روز تیرے لیئے کوئی گھوڑ سوار آئے اور صحرا کے درمیان غبار بلند ھو اور تم ننگے ھو جاؤ تیرے لیے تو صرف علی علیہ السلام کے نیزے کی انی ھی کافی ھے تجھ پر تنہائی میں معاویہ بھی مسکر ادیا کل عمرو کو یہ معاملہ پیش آیا اور اس نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور بسر کا انجام بھی وےسا ھی رہاپس ان دونوں نے عمر و اور پھر بسر سے کہا۔
اپنے نفوس کو نھیں دیکھتے کھیں تم پر دوبارہ شیر حملہ نہ کر دے تو شرم و حیاء کیوں نھیں کرتے خدا کی قسم اپنے نفس کی حفاظت کرو۔ حارث کھتے ھیں کہ اس کے بعد بسر بن ارطاةکے ساتھ بھی وھی کچھ کیا جو عمرو بن عاص کے ساتھ ھوا تھا[62]
نصر بن مزاحم عمر بن سعد سے روایت بیان کرتے ھیں وہ کھتے ھیں ھمارے درمیان حضرت علی (ع)موجود تھے۔ آپ حمدان، حمیر اور دوسرے مختلف لوگ جہاں موجود تھے ان کے درمیاں کھڑے تھے اس وقت اھل شام کے کسی شخص نے آواز دی کسی نے ابی نوح حمیری کو دیکھا ھے؟
کسی نے جواب دیا جی ہاں تمھیں اس سے کیا کام ھے؟ اس نے چھرے سے خود اتارا وہ ذوالکلاع حمیری تھا۔
نوح نے کھا: ھمارے ساتھ چلو۔
اس نے کہا: کہاں؟
کھابھرحال ھمیں اس صف سے نکل جانا چاھیے۔
ابو حمیری نے کہا: کیوں؟
اس نے کہا: مجھے تم سے کام ھے۔
اس نے جواب دیا: معاذاللهمیں کیوں جاؤں میں تو یہاں جنگ کرنے کے لیے آیا ھوں۔
ذوالکلاع نے کہا: ھمیں بتا کہ تیری گردن پر الله، رسول(ص) اور ذوالکلاع قبیلہ کی کوئی ذمہ داری ھے؟ اگر ھے تو تم اپنے قبیلے کی طرف چلو،بھرحال میں تم سے اس معاملے کے متعلق پوچھنا چاھتا ھوں جس کی طرف تم نکلے ھو ۔ابو نوح ، ذوالکلاع کے ساتھ وہاں سے چل پڑا۔
اس نے کہا۔میں نے تمھیں اس لیے بلایا ھے تاکہ تم مجھے وہ بات بتاؤ جو عمرو بن عاص نے عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں کھی تھی بھر حال تم ھمیں وہ حدیث ابھی سناؤ۔
اس نے کھامیرا خیال ھے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا۔
آپ نے فرمایا :
یلتقي اُھل الشام واٴھل العراق و فی اِحدیٰ الکتیبتین الحقُ واِمام الھدیٰ ومعہُ عمار بن یاسر ۔
اھل شام اور اھل عراق ایک مقام پر جنگ کے لیے جمع ھونگے اور ان دونوں لشکروں میں سے ایک حق پر ھوگا اور وھی امام ھدیٰ بھی ھوگا اور اس لشکر کے ھمراہ عمار بن یاسر بھی ھونگے۔
ابو نوح نے کھاجی ہاں خدا کی قسم ھم اسی گروہ میں سے ھیں ۔
اس نے کھاالله تجھے سمجھائے تم ھمیں جنگ میں کھری کھری سنانا چاھتے ھو (یا قتل کرنا چاھتے ھو)۔
ابو نوح نے کھاجی ہاں رب کعبہ کی قسم! یہ تمہارے ساتھ رھنا جنگ کرنے کی با نسبت زیادہ سخت ھے اگر تم اکےلے ھوتے تو میں جنگ کرنے سے پھلے تمھیں ذبح کر دیتاجبکہ تم تو میرے چچازاد ھو۔
ذوالکلاع نے کھاتو ھلاک ھو جا اس چیز کی تو مجھ سے تمنا رکھتے ھو خدا کی قسم اگرچہ تم میرے رشتہ دار ھو لیکن میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا لہٰذا مجھے اپنے قتل پر مجبور نہ کر۔
ابو نوح نے کھایہ تو الله تعالی نے اسلام کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ قطع رحم کر دیا ھے اور جو رشتہ دار نھیں تھے انھیں اسلام کی لڑی میں پرو دیا ھے میں تمھیں بھی قتل کروں گا اور تیرے ساتھیوں کو بھی فی النار کروں گا کیونکہ ھم حق پر ھیں اور تم باطل پر ۔
ذوالکلاع نے کھاکہ میرے ساتھ اھل شام کی صفوں میں شامل ھو جاؤ کیونکہ میری نظر میں تو اس کے ھمسایہ ھو،یہاں تک عمرو بن عاص سے ملے اور اسے عمار کے متعلق خبر دی اور جنگ میں ھمیں قتل کرنے کی بات ختم ھو جائے شاید اس سے دونوں لشکروں کے درمیان صلح ھو جائے۔
ابو نوح نے اسے جواب دیا عمرو ایک مکار آدمی ھے اور تم بھی مکار اور دھوکہ باز لوگوں میں پھنسے ھوئے ھو، معاویہ کا ساتھ دینے سے بھتر ھے کہ خدا مجھے موت دے دے اور میں مر جاؤں۔
ذوالکلاع نے کھااس بات میں میں بھی تمہارا ساتھی ھوں مگر یہ کہ قتل نہ کر دیا جاؤں اور بیعت پر مجبور نہ ھو جاؤں اور نہ ھی تیرے لشکر میں محبوس نہ ھو جاؤں۔
بھرحال ابو نوح نے کھاپروردگارا تو جانتا ھے کہ ذوالکلاع کیا کہہ رھاھے اور تو اسے بھی جانتا ھے جو میرے دل میں ھے مجھے اس سے پناہ دے، پس یہ کہہ کر وہ ذوالکلاع کے ساتھ چل دیا یہاں تک کہ عمر وبن عاص تک پھنچے اس وقت وہ معاویہ کے پاس موجود تھا اور اس کے ارد گرد کچھ لوگ موجود تھے۔
ذوالکلاع نے عمرو سے کہا،اے ابو عبدالله کیا اگرتجھے ایک ناصح، عقلمند اور شفیق انسان، عمار بن یاسر کے متعلق خبر دے تو تم اس کو جھٹلاؤ گے تو نھیں؟
عمرو نے کھا۔وہ کون ھے؟
ذوالکلاع نے کھاوہ میرا چچازاد بھائی کوفہ کا رھنے والا ھے ۔
عمرو نے کھاکیا تو مجھے ابو تراب کا ھم شکل دکھانا چاھتا ھے۔
ابو نوح نے کھاعلی (ع)تو محمد(ص) اور اس کے اصحاب کی ھیئت و شکل کے مالک ھیں جبکہ تم ابو جھل اور فرعون کی عادات و اطوار اور ھیئت و شکل والے معلوم ھوتے ھو۔
یہ سننا تھا ابو الاعور ننگی تلوار لے کر کھڑا ھوکر کھنے لگا کہ جھوٹااور لئےم شخص ھمارے درمیان کھڑے ھو کر ھمیں گالیاں دے رھاھے۔
ذوالکلاع نے کھامیں خدا کی قسم کھا کر کھتا ھوں اگر تمہارا ہاتھ اس کی جانب بڑھا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اتار دوں گا یہ میرا چچازاد بھائی اور ھمسایہ ھے اور میں نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ھے میں اس کو تمہارے پاس اس لیے لایا ھوں تاکہ تمھیں تمہاری حقیقت سے آشنا کردوں۔
اس سے عمرو ابن عاص نے کھاتجھے الله کی قسم تم جھوٹ نہ بولنا اور ھمیں صحیح صحیح بتاؤ کہ کیا عمار بن یاسر تمہارے ساتھ ھے؟ ۔ابو نوح نے کھامیں اس وقت تک تجھے اس کی اطلاع نھیں دوں گا جب تک تم مجھے یہ نہ بتاؤ کہ تم نے یہ سوال کیوں کیا ھے؟ جبکہ ھمارے ساتھ تو حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اور بھی کافی اصحاب موجود ھیں اور سب کے سب اس جنگ میں تمھیں قتل کر دینا چاھتے ھیں۔عمرو نے کھامیں نے حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے۔
اِنّ عماراً تقتلہُ الفئةُالباغیة واِنہ لیس لعمّار اٴن یفارق الحق ولن تاٴکل النار مِن عمار شیئا۔
بے شک عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا،جبکہ حق عمار سے جدا نھیں ھو گا اور عمار بھشت میں جائے گا۔
ابو نوح نے کہا:
لاالہ اِلاّالله والله اُکبر اِنہ یقیناً جادَ علیٰ قتالِکم ۔
الله کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے الله ھی اکبر ھے بے شک وہ ھمارے ساتھ ملکر تم سے جنگ کرے گا۔
عمرو نے بھی کھامجھے اس ذات کی قسم جسکے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے۔
یقناً( وہ کل )ھمارے ساتھ ھی جنگ کرے گا ۔
ابو نوح کھتا ھے جی ہاں جنگ جمل میں جب ھم اھل بصرہ پر چڑھائی کر رھے تھے تو اس نے مجھ سے کھاتھا گویا کل کی ھی بات ھے اور تم نے ھمیں مارا تھا یہاں تک کہ ھم کھجور کے درختوں تک جا پھنچے تھے اس وقت بھی ھمیں علم ھو گیا تھا کہ ھم حق پر ھیں اور تم باطل پر ھو۔
اس کے بعد ابن عاص، ذوالکلاع اور ایک جماعت کے ساتھ وہاں سے نکلا یہ سب لوگ عمار بن یاسر کے پاس جمع ھو گئے ۔عمر وبن عاص نے کھاھمارے سا تھ جنگ کرنے کی وضاحت کرو۔ کیا ھم ایک خدا کی عبادت نھیں کرتے ؟اور کیا جس قبلہ کی طرف تم منہ کر کے نماز پڑھتے ھو ھم اس کی طرف منہ کر کے نماز نھیں پڑھتے؟ اور تمہاری دعوت کو ھم نے قبول نھیں کیا؟ کیاھم قرآن نھیں پڑھتے؟ اور تمہارے نبی پر ایمان نھیں رکھتے؟۔
عمار نے جواب دیا اس الله کا لاکھ لاکھ شکر و حمد ھے جس نے مجھے تم لوگوں سے جدا کیا ھے قبلہ اور دین تو میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ھے اس طرح رحمان کی عبادت‘ نبی اورکتاب بھی میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ھے تیرا اور تیرے ساتھیوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نھیں ھے اس پروردگار عالم کا لاکھ لاکھ شکر ھے جس نے تمھیں اس طرح بنایا ھے اور تمھیں گمراہ اور اندھا بنایا ھے۔میں عنقریب تمھیں بتاؤں گا کہ میں تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے جنگ کروں گا۔
حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ھے:
تیرے ساتھ جنگ کرنے والے ناکثین ھیں اور ایسا ھو چکا ھے (ناکثین نے مجھ سے جنگ کی ھے) اور تجھے قتل کرنے والے قاسطین ھونگے اور وہ تم لوگ ھو جہاں تک مارقین کا تعلق ھے مجھے نھیں معلوم میرا ان سے واسطہ پڑے گا یا نھیں۔
اے بد بخت و بے اولاد کیا تو نھیں جانتا کہ حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ وآلہ وسلم نے (مولا کائنات کے لیے ) ارشاد نھیں فرمایا۔
من کنت مولاہ فعلي مولاہُ اللھم والِ مَن والاہُ و عادِ مَن عاداہ ! فاٴنا مولیٰ الله و رسولَہُ وعلي مولاي بعد ھما ۔
جس کا میں مولا ھوں اسکے علی (ع) مولاھیں خدایا اس سے محبت رکھ جو علی (ع) کو ولی جانے، اس سے بغض و عداوت رکھ جو علی (ع)سے دشمنی و عداوت رکھتا ھو، پس میں وہ ھوں جس کے مولا و آقاالله اور رسول ھیں اور ان کے بعد علی (ع)میرا مولا و آقا ھے۔[63]
جناب ابن ابی الحدید مندرجہ بالا روایت کے متعلق ارشاد فرماتے ھیں کہ مجھے اس قوم پر بھت تعجب ھے جنھیں حضرت عمار کی اس جنگ میں موجودگی سے تو شک ھو رھاھے کہ اگر عمار اس جنگ میں موجود ھوئے تو ھم ناحق ھونگے اور انھیں حضرت علی (ع)کی موجودگی کا خیال نھیں کہ ان کے ساتھ جنگ درست نھیں ھے ۔
عمار کے حوالہ سے استدال پیش کر رھے ھیں ۔کہ حق اس قوم عراق کے ساتھ ھے کیونکہ ان میں حضرت عمار موجود ھیں لیکن حضرت علی (ع) سے جنگ کرتے ھوئے ان کو پرواہ تک نھیں یہ لوگ رسول خدا کے اس فرمان سے تو ڈر رھے ھیں اورپریشان ھیںکہ(عمار) تجھے باغی گروہ قتل کرے گا لیکن انھیں حضرت رسول خداصلی الله و علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان سے خوف نھیں آتا جوانھوں نے حضرت علی علیہ السلام کے شان میں کھاھے۔
اللھم وال من ولاہ و عاد من عاداہ
خدا اسے دوست رکھ جو علی علیہ السلام سے محبت کرتا ھو اور اسے دشمن رکھ جو علی (ع)سے عداوت رکھے۔
اور انھیں رسول خدا کا یہ فرمان بھی سوچنے پر مجبور نھیں کرتا۔
لا یحبک الا موٴمن و لا یبغضک الا منافق۔
اے علی تجھ سے صرف مومن ھی محبت رکھ سکتا ھے اور تجھ سے بغض رکھنے والا (تو)منافق ھے۔
ابن ابی الحدید مزید فرماتے ھیں یہ اس بات کی بین اور واضح دلیل ھے کہ تمام قریشیوں کی یہ پوری سعی و کوشش تھی کہ ابتدا ھی سے علی(ع) کے ذکر کو چھپایا جائے اور ان کے فضائل پر پردہ ڈالا جائے ۔[64]
نصر بن مزاحم عمر بن سعد سے روایت بیان کرتے ھیں کہ جنگ صفین میں ایک دن اتنی شدےد لڑائی ھوئی کہ تکبیر کے علاوہ نماز تک نہ ھو سکی اس دن حضرت عمار بن یاسر قتل کر دے گئے جب ان کی نگاہ عمرو بن عاص کے پرچم کی طرف اٹھی تھی تو فرمایا تھا خدا کی قسم یہ جھنڈے والا تین اھم چیزوں کا قاتل ھے اسے کوئی ھدایت نھیں دے سکتا پھر یہ شعر کھے:
نحنُ ضربنا کم علیٰ تاٴویلہِ
کما ضربناکم علیٰ تنزیلہِ
ضرباً یزیل الھامُ عن مقیلہ
ویذھل الخلیلُ عن خلیلہِ
او یرجع الحق الی سبیلہ
ھم نے تم کو تاویل کے ساتھ اس طرح شکست دی جس طرح ھم نے تمھیں تنزےل قرآن کے ساتھ شکست دی تھی ھماری ضرب نے بات کرنے والے کو ھلاک کر دیا اور دوست سے دوست جدا ھو گیا یا حق اپنے اصل ٹھکانے کی طرف پلٹ آیا ۔
پھر عمارکو پیاس لگی پیاس کی شدت نے نڈھال کر دیا ایک سخی خاتون آئی۔نھیں جانتا تھا کہ یہ اس کی والدہ تھی جس نے دودھ کا پیالہ اٹھا رکھا تھا عمارنے اسے پیتے ھوئے کھاکہ جنت میری مشتاق ھے آج میری اپنے محبوب (رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات ھونے والی ھے۔
ذولکلاع نے عمرو بن عاص کو یہ کھتے ھوے سنا کہ حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ و آلہ وسلم نے عمار سے فرمایاکہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا اور مرتے وقت تو دودھ پیئے گا۔
ذوالکلاع نے عمرو بن عاص سے کھایہ سب کچھ کیا ھے کیا یہ تیرے لیئے افسوس کا مقام نھیں ھے؟
عمرو نے کھاابھی عنقریب یہ ابو تراب کو چھوڑ کر ھمارے ساتھ شامل ھو جائے گا یہ سب کچھ عمار کی شہادت سے پھلے کی باتیں تھیں جس دن عمار قتل ھوے اس دن ذولکلاع بھی قتل ھوا۔عمرو نے معاویہ سے کھاخدا کی قسم تم جانتے ھو ان دونوں کے قتل ھونے سے مجھے کتنی خوشی ھوئی ھے ۔خدا کی قسم ذولکلاع باقی نھیں رھااور عمار بھی قتل ھو گیا جس کی وجہ سے لوگ علی(ع) کی طرف مائل ھو رھے تھے اور معاملہ یہ ھم مشکل سے مشکل تر ھوتا جا رھاتھا۔[65]
اھل شام میں سے ابن جونی کھتا ھے کہ میں نے عمار کو قتل کیا ھے عمر بن عاص نے پوچھا جب تم نے اسے قتل کیا تھا اس وقت اس کے منہ سے کیا الفاظ نکلے تھے وہ کھتا ھے اس وقت عمار کہہ رھے تھے۔
الیوم اٴلقیٰ الاٴحبة محمداً و حزبہ
آج میں اپنے احباء سے ملوں گا ۔یعنی میری حضرت محمد مصطفی صلی الله و علیہ وآلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ھو گی۔
عمرو نے کھاتو نے سچ کھاھے تو نے ھی اسے قتل کیا ھے الله نے تجھے کامیابی نھیں دی بلکہ تیرا رب غضبناک ھوا ھے۔[66]
روایت میں ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عاص پر اپنی تلوار سے حملہ کر دیا اور فرمایا اے ابن نابغہ اسے سنبھالو وہ خوف زدہ ھو کر گھوڑے سے نیچے گر گیا اور اس نے اپنی شرم گاہ کھول دی ۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اے ابن نابغہ تو اپنی شرم گاہ کا آزاد شدہ ھے معاویہ یہ سن کر مسکرایا اور اس نے کھااے عمر تو نے اپنے نفس کو کتنا رسوا کرلیاھے۔
عمر نے معاویہ سے کھااے ابو عبدالرحمن کون اس بڑی مصیبت میں پھنسنا چاھتا ھے علی(ع) کے مقابلے میں نہ تو میری جراٴت و طاقت ھے اور نہ تجھ میں ھمت ھے نہ ولید میں اتنا زور ھے حتی کہ ھم جتنے لوگ بھی یہاں جمع ھیں کسی میں اتنی قدرت نھیں ھے کہ علی (ع)کا مقابلہ کر سکے اگر تجھے میری بات پر یقین نھیں آتا تو آزمالے جبکہ علی (ع)نے تو تجھے کئی بار مقابلے کے لیے بلایا ھے لیکن تجھ میں ھمت نہ ھوئی۔[67]
ولید نے ایک ہزار گھوڑا سواروں کے ساتھ حضرت علی (ع)پر حملہ کر دیا تو حضرت نے بھی اتنے ھی گھوڑے سواروں کے ساتھ اس پر جوابی حملہ کیا تو ولید اور اس کے ساتھی میدان سے بھاگ گئے لیکن حضرت امیرالمومنین علی (ع)نے ان کا پیچھا نہ کیا آپ ھر بھاگنے والے کے ساتھ اس طرح پیش آتے رھے۔اصبغ بن نباتہ اور صعصعہ بن صوحان نے عرض کی یا امیرالمومنین اگر ھم بھاگنے والوں کے پیچھے نہ جائیں گے اور انھیں قتل نہ کریں گے تو پھر ھمیں کس طرح فتح نصیب ھو گی جبکہ ھمارے کچھ لوگ بھاگتے ھیں تو یہ لوگ پیچھا کر کے انھیں قتل کر دیتے ھیں۔
حضرت امیرالمومنین نے ارشاد فرمایا:
اِنّ معاویہ لا یَعملُ بکتابِ الله، و سنة رسولہ ولستُ اٴنا کمعاویہ ولو کان عندہ عِلم و عمل لما حاربني والله بیني و بینہ۔
معاویہ نہ تو الله کی کتاب پر عمل کرتا ھے اور نہ ھی سنت رسول پر چلتا ھے جبکہ میں معاویہ کی طرح نھیں ھوں اگر اسے( دین اسلام) کا علم ھوتا اور اس پر عمل کرتا تو خدا کی قسم میرے ساتھ جنگ نہ کرتا اور ھمارے درمیان لڑائی نہ ھوتی۔[68]
نصر بن مزاحم کھتے ھیں جب حضرت علی علیہ السلام نے جوابی حملہ کیا اورتھلیل و تکبیر بلند کرتے ھوئے یہ اشعار کھے:
من اٴي یومیَّ من الموت اٴفرّ اٴیوم لم ےقدر اٴو یوم قدر
میں اپنی موت کے دن کب بھاگا ھوں کیا جب میں قادر نھیں تھا اس دن یا جس دن میں قادر تھا (یعنی میں کبھی موت سے نھیں بھاگا ) [69]
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ وآلہ وسلم کا گھوڑا منگوایا اس گھوڑے کو( مرتجز) کے نام سے یاد کیا جاتا تھا آپ اس پر سوار ھو کر صفوں کی طرف بڑھنے لگے پھر آپ نے فرمایا بغلہ( خچر) لایا جائے آپ کی خدمت میں حضرت رسول خدا کا خچر لایا گیا اس کا نام شھباء تھا آپ اس پر سوار ھوئے اور پھر آپ نے حضرت رسول خدا کا عمامہ باندھا اور یہ سیاہ رنگ کا عمامہ تھا پھر آپ نے آواز دی۔
یا ایھاالناس من یشر نفسہ لله یربح۔
اے لوگو تم میں کون ھے جو اپنے نفس کو الله کے پاس بیچ کر نفع کمائے ۔
یہ سلسلہ آج کے دن ھے اور اس کا نفع بعد میں ھوگا تمہارے دشمن نے تم پر حملہ کرنے میں پھل کی ھے تم اپنے خدا کی نصرت کے لیے آگے بڑھو وہ تم دس ہزار کو بارہ ہزار پر فتح دے گا۔ ان کی تلواروں کو ان کی گردنوں پر دے مارو اور اھل شام کے لیے یہ اشعار کھے :
دَبّوادبیب النمل لا تَفوتوا
واٴصبحوافي حربکم وبیتوا
حتی تنالوا الثاراٴو تموتوا
اٴولا فاِنّي طالما عُصیتَ
قد قلتموا لو جئتنا فجےت
لیس لکم ما شئتموا و شیتُ
بل ما یریدالمحي الممیت
تم چیونٹی کی چال چل رھے ھو اور ھلاک نھیں ھوتے۔انھوں نے تم سے جنگ کرتے ھوئے(کئی) دن اور رات گزار دیئے ھیں بھر حال یہاں تک کہ تم لڑومقصد حاصل کرو یا مرجاؤاور میں تمہاری نافرمانی کو نہ دےکھوں اگر تمہارے پاس (جنگ کرنے )آئیں تو ان سے لڑنااور اگر نہ آئیں تو پھر ھم بھی یھی چاھتے ھیں کہ انھیں کچھ نہ ھو بلکہ مرنے والا زندہ رھنے کا ارادہ نھیں رکھا کرتا ۔
جب شام والوں نے حملہ کر دیا تو عراق والوں کی طرف سے بھی مالک اشتر نے بھت بڑا اور کامل حملہ کیا جس سے اھل شام کے پا ؤں اکھڑ گئے جو بھی ان کی طرف آگے بڑھتا ھوا نظر آتا اھل اعراق اسے پچھاڑ دیتے یہاں تک کہ معاویہ کی موت کا معاملہ قریب آن پھنچا حضرت علی (ع)اپنی تلوار سے لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کرتے جاتے اور فرماتے جاتے ۔
اٴضر بھم ولا اٴریٰ معاویہ
الاخزر العین العظیم الحاویة
ھوت بہ في النارِ اٴمٌ ھاویة۔
انھیں مارو اور معاویہ تک کی پرواہ نہ کرو یہ سبز آنکھوں والا بڑا جھنمی ھے اسے پا کر (جھنم) کی آگ بھی چیخ و پکار کرے گی۔
معاویہ نے گھوڑے پر بیٹھ کر آواز بلند کی ھے بچاؤ ۔اس نے اپنے دونوں پیر رکاب میں رکھے اور بلند ھو کر کچھ توقف کیا پھر کہا۔ اے عمر ابن عاص آج صبر کا دن ھے اور کل فخر کا دن ھوگا اس نے کھاکہ تو نے سچ کھاھے پھر معاویہ رکاب میں پاؤں رکھے اور نیچے اتر آیا اور یوں اشعری وہاں رک گئے[70]
شعبی کھتے ھیں کہ اھل شام کا ایک شخص جس کا نام اصبغ بن خزار ازدی تھا یہ معاویہ کی جماعت میں شامل تھا اور جاسوسی کر تا تھا حضرت علی علیہ السلام نے اسے مالک اشتر کے حوالے کر دیا انھوں نے اسے قتل کرنے کے بجائے اسیر بنا لیا اور رات کے وقت اسے باندھ دیا گیا اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بٹھا دیا اور صبح کا انتظار کیا جانے لگا۔
اصبغ بھت بڑا شاعر تھا اسے قتل کئے جانے کا یقین سا ھو گیا تھا اس وقت اصحاب سو چکے تھے اور اس نے بلند آواز سے قصیدہ پڑھا جس میں رحم کی اپیل کی گئی تھی چنا نچہ مالک اشتر نے اس کے اشعار سن لئے۔ وہ کھتا ھے کہ صبح اشتر مجھے حضرت علی(ع) کے پاس لے گئے اور وہاں عرض کی امیرالمومنین یہ معاویہ کا ساتھی ھے ھم نے اسے کل گرفتار کیا تھا اور گزشتہ رات یہ ھمارے پاس رھااس نے رحم کی اپیل پر مشتمل اشعار کھے اس نے مجھے متاثر کیا بھرحال اگر اسے قتل کرنا ھے تو میں اسے قتل کرنے پر آمادہ ھوں اور اگر اس کے لیے عفو اور معافی کی کوئی سبیل موجود ھے تو مجھے ھبہ کر دیجئے۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا اے مالک یہ تیرا ھے بھرحال جب بھی مسلمانوں کا کوئی شخص گرفتار ھو تو اسے قتل نہ کیا جائے ۔[71]
حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں نے معاویہ کے سپاھیوں پر بھر پور اور شدید حملہ کر دیا اور ان کی شکست قریب تھی معاویہ نے اپنے گھوڑے پر بلند ھو کر کھاھمیں ان سے نجات دلاؤ۔
عمر بن عاص نے کھاتم کہاں ھو اس نے کھاکیا دیکھ نھیں رھے ھو میں تیرے سامنے ھی تو کھڑا ھوں۔
عمر بن عاص نے کھاھمارے پاس اس کے علاوہ کوئی حیلہ و بہانہ نھیں ھے کہ ھم قرآن مجید کو (نیزوں پر ) بلند کریںاور انھیں اس پر فیصلہ کرنے پر آمادہ کریں اس طرح انھیں ان حملوں سے روکا جا سکتا ھے۔
معاویہ نے کھافورا قرآن نیزوں پر بلند کرو اور زور زور سے آواز دو (ندعو کم الی کتاب اللہ) ھم تمھیں قرآن کی طرف بلاتے ھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ دھوکہ ھے ان لوگوں کا قرآن کے ساتھ کوئی تعلق نھیں ھے یہ اصحاب قرآن نھیں ھیں۔ اشعث نے اس پر اعتراض کیا اور معاویہ نے اس کی آواز کو سن لیا اور کھنے لگا لوگ حق کا مطالبہ کر رھے ھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا عنقریب یہ تیرے دھوکہ کو بھانپ لیں گے اور تجھ پر حملہ آور ھونگے اشعث نے کھاخدا کی قسم اب ھم انھیں جواب نہ دیں گے بلکہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور یمانیہ بھی اشعث کے ساتھ مل گئے پھر اشعث نے کھاجس کا انھوں نے مطالبہ کیا ھے ھم ان پر جوابی حملہ نہ کریں گے اور ان کے بجائے آپ پر ٹوٹ پڑیں گے اس سے اشعث اور اشتر کے درمیان جھگڑا ھو گیا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔چنا نچہ حضرت علی علیہ السلام نے سوچا کہ اس طرح میرے ساتھیوں میں تفرقہ پڑ جائے گا جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی تو فیصلہ کرنے پر مجبور ھو گئے۔[72]
ابو سعید کی سند کے حوالہ سے خوارزمی کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تکون فرقة بینَ طائفتین مِن اُمتي تمرق بینھما مارقة یقتلھا اٴولیٰ الطائفتین بالحق۔
میری امت دو گروھوں میں بٹ جائے گی ان میں سے ایک گروہ گمراھی کی وجہ سے دین سے خارج ھو جائے گا اور حق پر موجود گروہ سے جنگ کرے گا۔[73]
ابی سعید خدری روایت بیان کرتے ھیں کہ ھم حضرت رسول خدا صلی الله وعلیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے آپ کچھ تقسیم فرما رھے تھے۔ آپ کے پا س بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ آیا۔ اس نے کھایا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصاف کیجیے۔
حضرت نے ارشاد فرمایا۔ بدبخت اگر میں انصاف نھیں کروںگا تو کون کرے گا ؟اگر ھم عدل و انصاف سے کام نہ لیں تو تم گھاٹے اور نقصان میں رھو گے۔
اس وقت عمر ابن خطاب نے کہا:
یا رسول اللہ مجھے حکم دیں میں ابھی اس کی گردن اتار پھینکوں ۔حضرت رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑدو۔
اس کے ایسے ساتھی ھیں جو تم میں سے ھیں اور وہ ایک دوسرے کی نماز کو حقیر سمجھیں گے اورایک دوسرے کے روزے کو غلط سمجھیں گے ۔وہ قرآن پڑھیں گے لیکن عمل نھیں کرےں گے وہ گمراھی کی بناء پر دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر چلہ کمان سے نکل جاتا ھے۔
وہ تیر چلانے کے بعد کمان کو دےکھتا ھے اسے مطلب کی کوئی چیزنظر نھیں آتی پھر وہ اس کے استحکام کو دیکھتا ھے۔ وہاں بھی اسے کچھ دکھائی نھیںدیتا پھر وہ اس کے رستے کو دےکھتا ھے اور وہاں بھی اسے کچھ حاصل نھیں ھوتا، وہ خون بہانے میں پھل کریں گے ان کی نشانی سیاہ رنگ والا شخص ھے اس کی ایک چھاتی عورت کے پستان کی طرح ھے اور وہ مضطرب رھتا ھے کبھی آگے جاتا ھے اور کبھی پیچھے آتا ھے اور یہ لوگ کائنات کے بھترین فرقے سے جنگ کریں گے۔[74]
اکثر محدثین نے یہ روایت بیان کی ھے کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی الله و علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:
اِنَّ منکم مَن یُقاتل علیٰ تاٴویل القرآن کما قاتلتُ علیٰ تنزیلہ،۔
تم میں سے کون ھے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کر کے اس طرح حفاظت کرے جس طرح میں نے تنزیل کے موقع پر جنگ کر کے اس کی حفاظت کی ۔
حضرت ابو بکر نے کھایا رسول الله( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسا کروں گا۔ حضرت نے فرمایا نھیں۔ حضرت عمر نے کھایا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ شخص میں ھوں، حضرت نے فرمایا نھیں بلکہ وہ شخص وہ ھے جو اپنا جوتا سی رھاھے ۔اور حضرت نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ھے۔[75]
حضرت علی علیہ السلام جب خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ھوئے تو ارشاد فرمایا :
لولا اٴننی اخاف اٴن تتکلوا و تترکوا العمل لاخبرتکم بما قضاہ الله علیٰ لسان نبیہ صلیٰ الله ُ علیہ و آلہِ وسلم ۔
اگر مجھے یہ خوف نہ ھوتا کہ تم لوگ عمل کرنا چھوڑ دو گے تو میں تمھیں الله تعالی کے ان فیصلوں سے با خبر کرتا جو الله تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی الله و علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری فرمائے ھیں کہ کون کون سے لوگ گمراھوں کی گمراھی کو دیکھتے ھوئے ان کی حماےت میں لڑےں گے۔
خوارج میں ایک شخص اےسابھی ھے جسکے ہاتھ ناقص ھیں اور اس کے پستان عورت کے پستانوں کی طرح ھیں وہ کائنات کابد ترین شخص ھے اور ان کے قاتل تو الله کے وسیلہ کے ساتھ حق کے قریب تر ھیں۔
یہ مخدج اور ناقص الخلقت اپنی قوم میں معروف نھیں تھا یعنی کسی کو اس کے باری میں معلوم نہ تھاجب وہ شخص مارا گیا تو حضرت علی علیہ السلام نے اسے مقتل سے منگوایا اور ارشاد فرمایا:
والله ما کذبت ولا کذبت
خدا کی قسم نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ھے اور نہ مجھے جھٹلایا گیا ھے۔
بھرحال یہ شخص خوارج میں موجود تھا اور جب اس کی قمیض کو پھاڑا گیا تو اس کے سینے پر عورت کے پستان کی طرح دو ابھار موجود تھے اور ان پر بال اگے ھوئے تھے جب ان بالوں کو کھینچا جاتا تو وہ دونوں سکڑ جاتے اور جب چھوڑا جاتا تو اپنی اصلی حالت پر پلٹ جاتے جب حضرت علی علیہ السلام نے اسے دیکھا تو نعرہ تکبیر بلند کرتے ھوئے فرمایا:
اِنّ في ھذا لعبرةً لمن استبصر
صاحبان بصارت کے لیے یہ بھت بڑی عبرت ھے۔[76]
احمد بن حنبل اپنی مسند میں مسروق سے روایت بیان کرتے ھیں کہ مسروق کھتا ھے کہ مجھ سے حضرت عائشہ نے فرمایا بے شک تو میرا بیٹا ھے اور مجھے سب لوگوں میں زیادہ عزیز ھے یہ بتا کہ تجھے مخدج کے متعلق علم ھے؟ میں نے عرض کی جی ہاں، اسے حضرت علی ابن ابی طالب نے جنگ نھروان میں قتل کیا تھا اور اس دن نھروان کے تمام( بڑے بڑے )لوگوں نے اس کو دےکھا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا:
گویا اس پر بینہ بھی قائم ھے اور وہ لوگ اس وقت اس کے گواہ تھے مسروق نے حضرت عائشہ سے کھاجو کچھ میں نے اس مخدج کے متعلق حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے حوالہ سے سن رکھا تھا تم صاحب قبر سے اس کی تصدیق کرلو، حضرت عائشہ نے کھاجی ہاں میں نے بھی حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:
”اِنھم شرالخلق وا لخلیقة یقتلھم خیرالخلق والخلیقة واٴقربھم عندالله وسیلة۔“
وہ اس کائنات کا بد ترےن فر د ھے اور اس کے قاتل کائنات کے بھترین لوگ ھیں اور وہ الله کے نزدیک تر ھیں۔[77]
طبری اپنی تاریخ میں بیان کرتے ھیں کہ(جنگ صفین سے واپسی کے بعد)جب حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں داخل ھوئے تو ان کے ساتھ بھت سے خوارج بھی کوفہ میں داخل ھو گئے۔ بھت سے لوگ کھجوروں کے درختوں اور دوسرے باغات کی آڑ میں کوفہ پھنچ گئے۔ البتہ کافی لوگوں کو داخل ھونے سے روک دیا گیا۔ لیکن حرقوص بن زھیرالسعدی اور زرعہ بن البرج الطائی داخل ھو گئے۔یہ دونوں حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں خوارج کے سردار تھے ۔ان میں حرقوص حضرت سے کھنے لگا:
آپ اپنی غلطی کی ھے،لہٰذا الله سے توبہ و استغفار طلب کریں ھمارے ساتھ آئیں اور معاویہ سے جنگ کریں۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: جب میں تم لوگوں کو ظلم سے روک رھاتھا تو تم سب نے انکار کر دیا تھا اور اب مجھے قصور وار ٹھھرا رھے ھو، خبردار میں نے جو کچھ کھاھے یہ معصیت نھیں یہ تمہاری تدبیر اور رائے کی کمزوری اور عاجزی ھے میں نے تو تمھیں اس سے بھت روکا تھا لیکن تم لوگوں نے میری بات نھیں مانی تھی۔
اسی کے بعدزرعہ کھتا ھے: خدا کی قسم اگر آپ نے تحکم الرجال(حکمیت) کے حوالہ سے توبہ نہ کی تو میں آپ کو قتل کر کے خدا کی خشنودی حاصل کر وں گا حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تجھ پر افسوس ھے، تو کتنا شقی القلب ھے کیا تو مجھے قتل کرنا چاھتا ھے۔ خدا تجھے نابود کرے زرعہ نے کہا: میں اسی کو دوست رکھتا ھوں ۔[78]
جب خوارج حضرت علی علیہ السلام کے پس پشت، دریا کے کنارے جمع ھو گئے توعبدالله بن عباس نے انھیں خطاب کرتے ھوے ارشاد فرمایا: تم نے حضرت امیرالمومنین کے خلاف کیوںقیام کررکھا ھے؟۔
وہ کھنے لگے یہ پھلے ھمارے امیر تھے اب نھیں ھیں جب سے انھوں نے دین خدا میں تحکیم(حکمیت) کو قبول کیا ھے اس وقت سے وہ ایمان سے خارج ھو گئے ھیں اور جب وہ اس فیصلے پر ڈٹ گئے ھیںاس وقت سے وہ کفر پرھیں ،ابن عباس نے کھاکہ کسی مومن کے لئے سزاوارنھیں ھے کہ وہ کسی کے ایمان کے متعلق اس طرح کھے ۔
خوارج نے کھاانھوں نے حکمیت کو قبول کیا ھے، تب ابن عباس نے کہا: کہ خداوند عالم نے ایک شکار کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:
”یَحکم بہ ذوا عدلٍ منکم“
تحکیم تو صرف تم میں سے صاحبان عدل کے لیے ھے، لہٰذا تم کس طرح مسلمانوں پر ان کی امامت کے حوالہ سے انکار کر سکتے ھو، انھوں نے کہا: انھوں نے حکمیت کوقبول کیادر حالیکہ وہ دل سے راضی نھیں تھے۔
ابن عباس نے کھاکہ حکومت بھی امامت کی طرح ھے جب امام فاسق ھو جائے تو اس کی نا فرمانی واجب ھوتی ھے۔
اسی طرح یہ دونوں حکم ھیں ۔جب یہ دونوں اختلاف کریں ۔تو ان کے اقوال پر عمل کیا جائے گا پھرکھابعض بعض کے لیئے ھیں تم قریش کے احتجاج کو ان پر حجة قرار دو اوریہ تو ان لوگوں میں سے ھیں جن کا الله تعالیٰ نے فرمایاھے۔
ویلٌ ھم قوم خصمون
اس جھگڑا کرنے والی قوم کے لیئے ھلاکت ھے[79]
ابو جعفر طبری کھتے ھیں:حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو خطبہ دینے کے لیئے تشریف لائے مسجد کے ارد گرد لوگوں نے آپ کوگھیر لیا اور کھنے لگے۔
لاحکم اِلالله
حکم صرف الله کے لیئے ھے۔
ان میں سے ایک شخص چےخااور اس نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اور قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
<وَلَقَدْ اٴُوحِیَ إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اٴَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ >[80]
اے رسول تمہاری اور تم سے پھلے بھےجے گئے پیغمبروں کی طرف ےقےنا وحی بھیجی جا چکی ھے اگر کھیں شرک کیا تو تمہارے سارے عمل خراب ھو جائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں ھو گے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:
<فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلاَیَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِینَ لاَیُوقِنُونَ>[81]
اے رسول تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ھے اور جو لوگ تیری تصدیق نھیں کرتے وہ تجھے خفیف نھیں کر سکتے۔[82]
حضرت امیرلمومنین علیہ السلام کی خوارج کے ساتھ مھربانی کو ملاخطہ فرمائیں حالانکہ انھوں نے حضرت کو بھت کچھ نا سزا کھاتھا اس کے باوجود حضرت نے انھیں کھاکیا تم لوگ یہ نھیں جانتے ھو کہ جب اس قوم نے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا تو میں نے تمھیں کھاتھا کہ یہ سب کچھ دھوکے بازی ھے اور تمھیں کمزور کرنا مقصود ھے۔ ان لوگوں کا مقصد قرآن کو حکم بنانا ھوتا تو یہ میرے پاس آتے اور مجھے آ کر حکم بنانے کے متعلق کھتے ۔کیا تم اسے نھیں جانتے کہ جس قدر میں تحکیم کا مخالف تھا اتنا تم میں سے کوئی بھی نھیں تھا!
انھوں نے کھاآپ سچ کھتے ھیں ۔پھر فرمایا ۔آپ اسے بھی جانتے ھیں کہ تم ھی لوگ تھے جنھوں نے مجھے اس پر مجبور کر دیا تھا یہاں تک کہ میں نے انھیں جواب دیا اور شرط لگائی کہ ان دونوں کا فیصلہ تب قبول ھوگا ۔جب وہ الله کے فیصلے کے مخالف نہ ھو لیکن جب ان دونوں نے مخالفت کی، تو میں اور تم ان سے بری ھو گئے اور تم یہ بھی جانتے ھو کہ میں الله کے حکم سے عدول نھیں کر سکتاتب انھوں نے کھا: الله کی قسم ایسا ھی ھے۔
راوی کھتا ھے کہ گویا ان کے ساتھ اس وقت ابن کواء بھی تھا اور اس نے اس سے پھلے عبدالله بن خباب کو ذبح کیا تھا، انھوں نے کھاکہ آپ نے ھماری رائے سے الله کے دین میں حکم بنااور ھم اس سلسلے ھم اقرار کرتے ھیں کہ یقین اھم نے بھی کفر کیا تھا لیکن اس وقت توبہ کرتے ھیں۔ اب آپ بھی توبہ کریں اور ھمارے ساتھ شام کی طرف نکلیں ۔حضرت نے فرمایا کہ کیا تم نھیں جانتے الله تبارک وتعالیٰ نے عورت اور مرد کے مابین اختلاف کی صورت میں تحکیم کا حکم دیا ھے اور الله نے فرمایا ھے:
<فَابْعَثُوا حَکَمًا مِنْ اٴَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ اٴَہْلِہَا>[83]
ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے فےصلے کے لئے بلاؤ۔
اور شکار کی صورت میں بھی برابر برابر( نصف درھم) تقسیم ھو اور فرمایا۔
”یحکم بہ ذو اعدل منکم “
تم میں جو صاحبان عدل ھیں انھیں حکم بناؤ
انھوں نے حضرت سے کھاجب آپ نے یہ لکھا تھا :
ھذا ما کتبہُ عبدالله علي اٴمیرالمومنین۔
یہ معاھدہ الله کے بندے علی امیرالمومنین نے لکھا ھے۔
اسوقت عمرو عاص نے اسکا انکار کیا اور آپ کا نام خلافت سے کاٹ دیا اورصرف علی ابن ابی طالب لکھا، لہٰذاآپ خلافت سے دستبردار ھو گئے تو حضرت نے فرمایا:
میرے لیے حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اسوہ حسنہ موجودھے کہ جب سھیل بن عمر نے آپ کی اس عبارت پر اعتراض کیا :
ھذا کتاب کتبہُ محمد رسول الله صلیٰ الله علیہ وآلہ وسلم۔
یہ خط اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے لکھاھے۔
سھیل بن عمر نے کھاکہ اگر ھم یہ مانتے ھوتے کہ آپ الله کے رسول ھیں تو پھر ھمارا جھگڑا نہ ھوتا اور ھم آپ کے فضل وکرم اور فضیلت کو تسلیم کر لیتے لہٰذا جب ھم آپ کو رسول الله نھیںمانتے لہٰذا محمد(ص) ابن عبدالله لکھیںاس وقت حضرت نے مجھ سے فرمایا تھا کہ یاعلی میرے نام سے لفظ رسول الله مٹا دو۔ اس وقت میں نے عرض کی تھی ۔یا رسول اللہ میرے اندر اتنی جرات نھیں ھے کہ میں نبوت سے آپ کے نام کو مٹا سکوں (تنھاآپ کا نام لکھوں اور رسول الله نہ لکھوں ) اس وقت حضرت نے اپنے دست مبارک سے ھی لفظ رسول الله کومٹایا تھا اور پھر فرمایا:
محمد بن عبدالله لکھو اور پھر میری طرف دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا ۔اے علی تیرے ساتھ بھی یہ سب کچھ ھونے والا ھے۔[84]
ایک اور روایت کے مطابق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہامجھے یہ بتاؤ کہ تم لوگ مجھ سے کیوں جنگ کرنا چاھتے ھو تو انھوں نے جواب دیا۔
جب ھم نے آپ کے زیر سایہ اھل بصرہ کے ساتھ جنگ کی تھی اور الله تبارک وتعالی نے ھمیں کامیابی سے ھمکنار فرمایا دیا تھا تو آپ نے اس لشکر کے سازو سامان توھمارے درمیان تقسیم فرما دیا تھا لیکن ان کی عورتوں اور بچوں کو کنےز اور غلام بنانے سے منع فر مایا تھا،لیکن ھمارا سوال یہ ھے کہ لشکر کا مال و متاع تو ھمارے لیے حلال ھو اور ان کی عورتیں ھمارے لیے حلال نہ ھوں۔ کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
اے لوگو اھل بصرہ نے ھم سے جنگ کی اورآغاز بھی انھوں نے کیا تھا اور جب ھمیں کامیابی مل گئی تو میں نے مردوں کے متعلق تمھیں اجازت دی اور خواتین اور بچوں کے متعلق تمھیں روکا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں نے تو تمہارے ساتھ جنگ نہ کی تھی کہ تم ان سے زیادتی کرتے اور بچے تو فطرت اسلام پر پیدا ھوتے ھیں انھوں نے تمھیں کچھ نھیں کھااور ان کا کوئی گناہ نھیں ھے یقیناآپ نے دیکھا ھے کہ حضرت رسول خدا صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم کس طرح مشرکوں کے ساتھ احسان فرماتے تھے لہٰذا میں اگر مسلمانوں کے ساتھ احسان کرنے کو کہہ رھاھوں اس پر بھی تعجب نھیں کرنا چاھیے اور خواتین اور بچوں کو کچھ نہ کھنا چاھیے۔
پھر انھوں نے کھاکہ ھم آپ سے اس لیے جنگ کرنا چاھتے ھیں کہ آپ نے جنگ صفین میں اپنے نام کے ساتھ سے لفظ امیرالمومنین مٹا دیا تھا (اس کا مطلب یہ ھے کہ ) آپ ھمارے امیر نھیں ھیں تو ھم پر آپ کی اطاعت بھی ضروری نھیں ھے اور آپ کو امیر ماننا بھی ضروری نھیں ھے تب حضرت نے فرمایا: اے قوم میں نے حضرت رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء کی ھے جب آپ نے صلح کی تو سھیل بن عمر نے اعترا ض کیا تھاجس کاتذکرہ گزشتہ صفحہ پر ھو چکا ھے تکرار کی ضرورت نھیں ھے ۔اس کے بعد انھوں نے مزید کہاھم اس لئے آپ سے جنگ کرنا چاھتے ھیں کہ آپ نے حکمین کے موقع پر انھیں کھاتھا:
اٴُنظرا کتاب الله
تم دونوں کتاب خدا کو ضرور مد نظر رکھنا۔
اگر آپ معاویہ سے افضل ھیں تو اسے کھتے کہ وہ خلافت کے معاملہ میں آپ کی پیروی کرے اور اگر آپ کو شک تھا تو پھر ھمیں بھی آپ کے سلسلہ میں بڑا شک ھے، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا میں نے یہ کلمہ (تم دونوں کتاب خدا کا لحاظ رکھنا ) اس لئیے کھاتھا کہ انصاف قائم رہ سکے اگر میں انھیں کھتا کہ آپ میرے حق میں فیصلہ کرنا اور معاویہ کو چھوڑ دینا تو وہ میری بات پر راضی نہ ھوتے اور اسے تسلیم نہ کرتے ۔
اسی طرح اگر رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نجران کے عیسائیوں سے یہ کھتے:
تعالوا حتیٰ نبتھل واجعل لعنة اللہ علیکم
تم لوگ آؤ اور ھم لوگ مباھلہ کرتے ھیں اور پھر ھم تم پر لعنت کریں گے تو وہ مباھلہ کے لیے آمادہ ھی نہ ھو تے لیکن انصاف یہ تھا جیسا کہ خداوندمتعال نے فرمایا:
<فنجعل لعنةالله علیٰ الکاذبین۔>
ھم میں سے جھوٹوں پر الله کی لعنت ھو۔
انھوں نے اس جملہ کو انصاف پر حمل کیا بالکل اسی طرح میں نے بھی کیا ھے، اور عمرو ابن عاص نے موسیٰ اشعری کو دھوکا دینے کا پھلے سے جو ارادہ کر رکھا تھا اسکا تمھیں علم نہ تھا ۔
انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ھوئے کہا۔ھم آپ سے اس لیے جنگ کرنا چاھتے ھیں ۔کہ ایک چیز آپ کا واضح حق تھا اس کے باوجود آپ نے حاکم بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ (جب حق آپ کا تھا تو پھر اس کا فیصلہ کروانے کی ضرورت ھی نہ تھی) حضرت نے ارشاد فرمایا: حضرت رسول( خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم )نے بھی تو سعدبن معاذ کو بنی قریضہ کے معاملے میں حاکم بنایا تھا۔ اگر وہ چاھتے تو حاکم نہ بناتے۔
بھرحال میں نے رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء و پیروی کی ھے اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا اس کے علاوہ بھی آپ کا کوئی اعتراض باقی ھے وہ خاموش ھو گئے اور اس وقت پو رے لشکر کی ھر طرف سے توبہ توبہ یا امیرالمومنین کی صدائیں بلند ھونے لگیں اور آٹھ ہزار آدمی آپ کے لشکر میں آگئے اور چار ہزار باقی بچ گئے۔[85]
جب حضرت علی علیہ السلام کے پاس یہ خبر پھنچی کہ انھوں نے جناب خباب اور اسکی بیوی کیساتھ کیا کیا زیادتی کی اور زمین میں فساد پھلانے کی کوشش کی تو آپ نے اپنے ایک ایسے صحابی کو ان کے پاس بھیجاجنھوں نے اھل شام کے ساتھ جنگ میں بڑی بہادری کا مظاھرہ کیا تھا جب وہ ان کے پاس پھونچے تو انھیں پیغام دیا کہ ابن خباب اور جو مسلمان تم نے نھروان کے راستہ میں قتل کئے ھیں ان کے قاتل ھمارے سپرد کر دو، انھوں نے اس پیغام لانے والے شخص سے کھاھم سب نے مل کر ابن خباب کو قتل کیا ھے اور اگر ھم علی کے قتل پر بھی قادر ھوتے تو ھم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بھی اس کے ساتھ ھی قتل کر د یتے ۔ [86]
ابوالعباس کھتے ھیںاس لشکر کے کچھ لوگ نھروان کی طرف چلے گئے اور کچھ لوگوں نے مدائن جا نے کا منصوبہ بنا لیا اور جب راستے میں ان کی کسی مسلمان اور عےسائی سے ملاقات ھوتی تو وہ مسلمان کوقتل کر دیتے کیونکہ ان کی نظر میں وہ کافر تھا اس لئے کہ وہ ان کے اعتقادات کے مخالف تھا اور عےسائی کو نصیحت و وصیت کر کے زندہ چھوڑ دیتے اور کھتے کہ اپنے نبی کے ذمیوں کی حفاظت کرو۔
ابوالعباس مزید کھتے ھیں کہ ایک عیسائی کا ایک کجھور کا باغ تھا۔ اس سے کھاگیا کہ ھمیں کچھ کھجور دے دو۔
اس نے کھاکہ یہ آپ کی چیز ھے انھوں نے کھاکہ ھم اس کی قےمت ادا کئے بغیر نھیں لیں گے، تو اس عیسائی نے تعجب سے کھاکہ تم لوگ عبدالله بن خباب جیسے لوگوں کوتو قتل کر دیتے ھو اور اس خرمہ کی قیمت ادا کیے بغیر قبول کرنے پر راضی نھیں ھو۔[87]
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مصیر اسود (اھل نھروان) کو ان کے انجام سے ڈراتے ھوئے فرمایا :
میں تمھیں آگاہ کر تا ھوں کہ تم لوگ اس نھر کے نشےب وفرازمیں بری طرح قتل کئے جاؤ گے۔ اور اس وقت نہ تمہارے پاس الله کے سامنے پےش کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل ھوگی، اور نہ کوئی ثبوت، اس طرح کہ تم اپنے گھروں سے بے گھر ھو جاؤگئے اور پھر قضائے الٰھی میں پھنس کر رہ جاؤ گے۔
میں نے تو تمھیں پھلے ھی اس تحکیم سے روکا تھا لیکن تم نے میرا حکم ماننے سے اس طرح انکار کر دیا جس طرح عھدو پےمان توڑنے والوں نے کیا تھا۔
یہاں تک کہ مجھے بھی مجبورا وھی کرنا پڑا جو تم چاھتے تھے تم لوگ بیوقوف اور نادان ھو، خدا تمھیں تباہ کرے ،میں نے تمھیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ھے اور نہ تمہارے بارے میں برا سو چا ھے۔[88]
طبری کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ابو ایوب کے ساتھ ملکر امان کے جھنڈے کوبلند کیا اور انھیں بلند آواز سے پکار کر کھاکہ تم میں سے جو لوگ قتل نھیں ھونا چاھتے وہ اس علم کے نیچے آ جائیں تو انھیں امان ھے ۔اسی طرح جو لوگ کوفہ اور مدائن کی طرف لوٹ جائیں انھیں بھی امان ھے ان افراد میں سے پانچ سو گھوڑے سوار بند نیجین کی طرف چلے گئے، ایک گروہ کوفہ کی طرف چلا گیا اور سو کے لگ بھگ مدائن کی طرف چلے گئے ان لوگوں کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی اور باقی دو ہزار آٹھ سو افراد بچ گئے[89]
ابو عبےدہ معمر بن مثنیٰ روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے عبداللہ بن خباب کے قتل کے بارے میں لوگوں کو مختلف گروھوں میں تقسیم کیا اور سب سے اقرار لیا ،چنانچہ سب لو گوں نے اقرار کیا اور کھاکہ جس طرح ھم نے عبدا للہ بن خباب کو قتل کیا ھے اسی طرح آپ کو بھی قتل کریں گے،اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:کہ اگر اس طرح پوری دنیا بھی عبداللہ بن خباب کے قتل کا اقرار کر لے اور میں ان سے جنگ کرنے کی قدرت رکھتا ھوں تو ان سب سے جنگ کروں گا ۔[90]
ابو العباس محمد بن یزید المبرد اپنی کتاب کامل میں ذکر کرتے ھیں کہ جب ان لوگوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام نے نھروان میں قیام کیا تو ارشاد فرمایا جب تک وہ پھل نہ کرےں ان کے ساتھ جنگ نہ کی جائے جب مخالفےن کے ایک شخص نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی صفوں پر حملہ کیا اور تےن افراد ماردئےے اور کھا:
اٴقتلھم ولا اریٰ علیاً ولو بدا اٴو جَرتُہ الخطِّیا
انھیں قتل کر دو اور علی کی پرواہ نہ کرو اگروہ جنگ کا آغاز نہ کرےں تو انھیں نیزوں سے جواب دو۔
حضرت علی علیہ السلام ان کی طرف نکلے اور ان کے ساتھ جنگ کی جب تلوارےں آپس میں ٹکرائےں توحضرت نے فرمایا کہ جنت کی کتنی عمدہ خوشبو ھے۔عبداللہ بن وھب نے کھاخدا کی قسم نھیں معلوم کہ جنت کی طرف جارھے ھیں یا،جھنم کی طرف؟ اس پر بنی سعد قبیلے کے شخص نے کہا: ھمیں عبداللہ بن وھب دھوکا دے کر جنگ میں لایا ھے اب ھم مشکوک ھیں اور اب ھم جنگ نھیں کرناچاھتے ۔چنا نچہ ان میں سے ایک ہزار کا لشکر ابوایوب انصاری کی طرف چلا گیا۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس وقت میمنہ کی طرف تھے ۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا: ان خوارج پر حملہ کردو خدا کی قسم ھمارے دس آدمی بھی نہ مارے جائیں گے اور ان کے دس افراد بھی نہ بچےں گے پس انھوں نے حملہ کیا تلوارےں ٹکرائےں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے نو افراد جاں بحق ھوئے اور خوارج کے آٹھ آدمی زندہ بچے۔[91]
علی ابن عیسی ارملی کھتے ھیں حضرت نے اپنے ساتھیوں کو آگے جانے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ لوگ نظر آنے لگے اس وقت ان کے مقابلہ میں عبداللہ بن وھب ذوالثےد یہ، حرقوص بن زھےر سعدی آگے بڑھے اور کھاھم آپ سے صرف اور صرف خدا کی خوشنودی اورآخرت کے لئے جنگ کرنے آئے ھیں حضرت علی علیہ السلام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
< قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا۔ الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا >[92]
کیا ھم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں بتائےں جو اپنے اعمال سے سخت خسارے میں ھیں یہ وہ لوگ ھیں جن کی سعی و کوشش دنیاوی زندگی میں بھک گئی ھے اوروہ خیال کرتے ھیں کہ وہ اچھے اعمال انجام دے رھے ھیں ۔
اس کے بعد دونوں گروھوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی خوارج کی طرف سے فارس نے حملہ کر دیا اسے اخنس طائی کہہ کر پکارا جاتا تھا ،یہ جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ تھا اس نے بھر پور حملہ کیا اور صفےں چےرتا ھوا حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے کا مطالبہ کرنے لگا۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایک ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا پھر ذوالثدیہ نے حضرت علی علیہ السلام پر وار کرنا چاہا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس پر سبقت کی اور ایک ھی وار میںاس کاسر دو ٹکڑے کر دئے ۔اس کا گھوڑا بھی مارا گیا جسے نھروان میں پھےنک دیا گیا۔
اس کے بعد اس کے چچا زاد مالک بن وضاح نے حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کر دیا حضرت نے اسے بھی ایک ضرب میںفی النار کیا اس کے بعد عبداللہ بن وھب راسبی نے یہ کھتے ھوئے حملہ کیا،اے ابن ابی طالب میں اس جنگ میں آپ کو صحیح و سلامت جانے نہ دوں گا ،یا توتم مجھ پر غالب آجاوٴ یا میں تم پر غالب آجاوٴلہٰذا میں صرف اور صرف آپ کے ساتھ جنگ کرنا چاھتا ھوں لہٰذا بقیہ لوگوں کو دور ہٹا دو ۔
آپ لوگوں کو ایک طرف کر دیں ھم آپس میں جنگ کرتے ھیں حضرت علی علیہ السلام اس کی بات سن کر مسکرا دئےے اور فرمایا :
اللہ تعالیٰ اس شخص کو قتل کرے ،جس میں شرم وحیاء بھی نھیں ھے اور فرمایا:یہ بھتر جانتا ھے کہ میں تیر وتلوار کا شےدائی ھوں لیکن یہ اپنی زندگی سے مایوس ھوچکا ھے۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک ضربت سے اس کا کام بھی تمام کر دیا اور اسے مقتولین کے ساتھ پھےنک دیا ۔
جنگ میں ایک گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ سب کے سب قتل ھوگئے حالانکہ چار ہزار تھے ان میں سے فقط نو کے قریب لوگ بچے ان میں سے دو خراسان کی طرف بھاگ گئے اور وہاں گرفتار کرلئے گئے دو عمان کے شھروں کی طرف بھاگ گئے اور یہ دو وہاں گرفتار کر لئے گئے اور دو یمن کی طرف بھاگ گئے اور وہ وہاں گرفتار ھوگئے اور دو جزےرہ کے شھروں کی طرف بھاگ نکلے۔[93]
جب خوارج کا قتل عام ھوا تو حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: مخدج کو تلا ش کرو۔ (مخدج کا معنی ھے ناقص الخلقت ھے اور مخدج حر قوص بن زھیر کا لقب تھا اور اس کا ہاتھ ناقص تھا )لوگ اس کی تلاش میں نکلے لیکن کسی نے اسے نہ پایا، حضرت علی علیہ السلام خوداسے تلاش کرنے نکلے اسی اثنا میںایک شخص نے کھامیں نے اسے دیکھاھے،یہ سن کر کے حضرت علی علیہ السلام نے تکبےر بلند کی اس سے اللہ تبارک تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق ھوگئی جسے اس کے نبی نے بیان کیا تھا۔
ابو راضی کھتے ھیں(آپ کا نام عباد بن نسےب القیس تابعی تھا یہ روایت ابو داؤد نے اپنی سنن میں اسی کی سند سے بیان کی ھے ) ھم نے اپنی آنکھوں سے دےکھا جب اس سے چادر ہٹائی گئی تو اس کے سےنے پر عورتوں کے پستانوں کی طرح ایک پستان تھا اور اس پر بھےڑیئے جیسے بال تھے۔[94]
اصحاب سیرت نے جندب بن عبداللہ الا زدی سے روایت بیان کی ھے کہ جندب کھتے ھیں کہ میں جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھا آپ نے جس شخص کو بھی قتل کیا مجھے اس کے قتل میں شک وشبہ نھیں ھوا لیکن جب ھم نھروان میں جمع ھوئے تو مجھے شک ھونے لگا میں نے خود سے کھاھم قاری قرآن ھیں اور نیک لوگ ھیں اور انھیں قتل کر رھے ھیں یہ بھت بڑی اور عجیب بات ھے۔
شام کے وقت میں باھر نکلا میرے پاس پانی کا ایک مشکیزہ بھی تھا میں ٹھلتا ھوا آگے نکل گیا یہاں تک کہ مجھے صفین نظر آنے لگی اس وقت مجھے اپنا نیزہ یاد آیا میں نے اس کو ایک طرف رکھا اور سورج کی شعاعوںسے چھپا لیا اور بیٹھ گیا انھی لمحات میں حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے اور مجھ سے کھا:
اے بھائی ازد کیا تیرے پاس پانی ھے میں نے عرض کی جی ہاں اور مشکیزہ ان کے سپرد کر دیا اور وہاں سے چلا گیا اور انھیں نہ دےکھا پھر واپس آیا منہ ہاتھ دھویا اور خیمے کے سائے میں بیٹھ گیا اس وقت فارس آیا اس نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق سوال کیا۔
میں نے حضرت سے عرض کی کہ فارس آپ سے ملنا چاھتا ھے حضرت نے فرمایا اسے بلالاؤ میں نے اس کو اشارہ کیا اور وہ آگیا اور کھنے لگا ائے امیر المومنین علیہ السلام آپ کے مخالفین نھر عبور کر رھے ھیں اور انھوں نے پانی بھی روک لیا ھے حضرت نے فرمایا وہ ھرگز عبور نھیں کر سکتے ا س نے کھاخدا کی قسم وہ اےسا کر رھے ھیںحضرت نے فرمایا۔
وہ ھرگز اےسا نھیں کر سکتے فارس نے کھابھرحال معاملہ اسی طرح ھے کہ وہ عبور کر رھے ھیں۔ اسی وقت ایک اور شخص آیا اس نے بھی کھاکہ وہ عبور کر رھے ھیں حضرت نے فرمایا وہ ھرگز عبور نہ کر سکیں گے۔ حضرت نے مزیدفرمایا خدا کی قسم تیرے پاس کوئی بھی نھیں آسکتا یہاں تک کہ وہ ساز وسامان اورجھنڈوں کے ساتھ نظر نہ آجائیں ۔
اس کے بعدحضرت نے مزید فرمایا خدا کی قسم وہ کچھ بھی نھیں کرےں گے بلکہ ھم انھیں پچھاڑ دیں گے اور ان کا خون بہائےں گے پھر حضرت اپنی جگہ سے اٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ھوگیا اور میں نے اپنے دل میں کہا:
پروردگارا تیرا لاکھ لاکھ شکر ھے کہ تونے مجھے اےسا ہادی اور رھنماعطا فرمایا ھے اور اس کے ذرےعہ مجھے اپنے امر کی معرفت کروائی ھے لوگ دو طرح کے ھیں ایک وہ جوجھوٹے ھیں اور دوسرے وہ جو پروردگار کی واضح دلیل اور اس کے نبی کے عھد پر قائم ھیں پروردگارا اگر میں نے تیرا عھد پورا کر دیا تو قیامت کے دن تو اس کے بارے میں مجھ سے سوال کرنا۔
اگر میں نے اس قوم کو عبور کرتے ھوئے دےکھا تو میں سب سے پھلے علی (ع) کے ساتھ جنگ کرنے ولا ھوں گا اور اپنے نیزے کی انی ان کے سےنے میں اتار دوں گااور اگرانھوں نے عبور نہ کیا تو بھی میں حضرت علی (ع)کے ساتھ رھوں گا اور ان کے مخالفےن کے ساتھ جنگ کرو ںگا ھم ان کی صفوں کی جانب بڑھے تو ھم نے ان کے جھنڈوں اور ساز وسامان کو پھلے کی طرح دےکھا۔
راوی کھتا ھے کہ حضرت نے میرا شانہ پکڑتے ھوئے مجھ سے فرمایا اے ازد بھائی تجھ پر معاملہ واضح ھوا یا نھیں؟ میں نے عرض کی جی ہاں،امیر المومنین معاملہ واضح ھوگیا آپ نے فرمایا وہ تیرا دشمن ھے میں نے اس شخص کو قتل کیا پھر دوسرے شخص کو قتل کیا پھر ایک اور شخص اور میری تلوارےں ٹکرائےں میں نے اس پر حملہ کیا اس نے مجھ پر حملہ کیا ،اوراسی طرح جنگ ھوتی رھی یہاں تک کہ مخالفےن کا کام تمام کر دیا۔
شےخ مفےد فرماتے ھیں یہ مشھور و معروف حدیث ھے اور اسے مختلف کتب میں بیان کیا گیاھے۔ایک شخص حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے دل کی حکاےت بیان کر رھاھے اور کسی بھی معتر ض نے اس پر اعتراض نہ کیا اور کوئی مفکر اس کا انکار نھیں کر سکتا۔ اس میں غیب کی خبرےں بھی ھیں۔ ضمیر کا علم بھی ظاھر ھے ۔نفوس کی معرفت بھی ھے اور واضح دلائل بھی ھیں ان میں جلیل بر ہان اور عظیم معجزے بھی ھیں اور حضرت ان سے آگاہ اور با خبر بھی ھیں۔[95]
ابن دےزےل کتاب صفین میں روایت بیان کرتے ھیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ سے حروریہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو آپ کے علم نجوم سے آشنابعض اصحاب نے کہا:
یا امیر المومنین آپ کو اس وقت میں سفرنھیں کرنا چاھیے بلکہ جب دن کی تےن ساعتےں باقی رہ جائیں اس وقت چلنا بھتر ھے کیونکہ اگر آپ اس وقت میںجنگ کے لئے روانہ ھونگے تو آپ اور آپ کے اصحاب کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ان آخری تےن ساعتوں میں حرکت کرےں گے تو خدا کامیابی عطا کرے گا اور آپ کی خواھشات پوری ھوں گی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تم جانتے ھو کہ میری اس گھوڑی کے پیٹ میں کیا ھے؟نر ھے یامادہ۔ اس نے کھابھر حال میںنے علم نجوم کی روشنی میں اپنے گمان کوبیان کیاھے حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : جو شخص بھی اس کی تصدیق کرے گا تو گویا وہ قرآن کی تکذےب کررھاھے کیو نکہ اللہ تبارک تعالی ارشاد فرماتا ھے:
< إِنَّ اللهَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاٴَرْحَامِ۔>[96]
اللہ تبارک وتعالی کے پاس ھی ساعتوں کا علم ھے اور وھی بارش نازل کرتا ھے اورجانتا ھے کہ ارحام میں کیا ھے ؟
اس کے بعد ارشاد فرمایا جس علم کا تو دعوےدار ھے اس کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بھی دعویٰ نہ کیا تھا۔کیا تو یہ گمان کرتا ھے کہ تجھے ان تمام ساعتوں کاپتہ ھے جن میں چلنے یا نہ
چلنے سے فائدہ یا نقصان ھوتا ھے۔ جس شخص نے بھی ان باتوں پر ےقےن کیا اور ان کی تصدیق کی وہ اللہ تعالی کی مددواستعانت سے محروم ھوجائے گا جب کہ وہ صاحب جلال و اکرام ھے اور وھی ان غلط چیزوں کو دور کرتا ھے۔جو شخص تیری ان باتوں پر ےقےن کر لے گا تو وہ اللہ جل جلالہ کے بجائے تیری حمد کرے گا کیونکہ کہ تیرے گمان کے مطابق تجھے ان ساعتوں کا علم ھے جن میں کام کرنے سے انسان کو نفع یا نقصان پھنچتا ھے ،بھر حال جس نے تیری ان باتوں پر ےقےن کیا گویا وہ اللہ پر ایمان نھیںلایاکیونکہ اس نے اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ دوسروں سے امیدیں وابستہ کر لیں۔پروردگارا نفع اور نقصان صرف تیرے ہاتھ میں ھے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے پھر آپ نے نجومی سے فرمایا :
ھم تیری مخالفت کرتے ھیں اور اسی میں ساعت حرکت کرتے ھیں جس میں چلنے سے تو نے روکا ھے پھر لوگوں کی طرف متوجہ ھو کر ارشاد فرمایا:
اٴیھاالناس اِیاّکم والتعلم للنجوم اِلاّ ما یُھتدیٰ بہ في ظلمات البروالبحر اِنما المنجم کالکاھن وا لکاھن کالکافر والکافر في النار۔
اے لوگو ! علم نجوم سےکھنے سے پر ھیز کرو آگاہ ھو جاؤ اےسا کرنے والا ھدایت سے ھمکنار نھیں ھو سکتاکیونکہ منجم کاھن کی طرح ھے اور کاھن کافر کی مانند ھے اور کافر جھنمی ھے۔خبردار اگر مجھے معلوم ھوا کہ تم نے نجوم پر عمل کیا تو میں تمھیں ھمیشہ کے لئے زندان میں ڈال دوں گا اور تمام عطاو بخشش منقطع کر دوں گا۔پھر آپ نے اس ساعت میں حرکت کی جس سے منجم نے روکا تھااور آپ کو نھروان والوں پر فتح وکامیابی نصےب ھوئی۔[97]
[1] ارشاد ج۱ص۲۴۴۔۲۴۵۔
[2] ارشاد ج۱ ص ۲۴۶۔۲۴۷۔
[3] ابن اثیر کی کامل فی التاریخ ج۲ ص ۳۲۵۔
[4] شرح نھج البلاغہ ،ابن حدید ج۱ ص۲۳۱۔
[5] کشف الغمہ ج۱ ص۲۳۹۔
[6] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۰۔
[7] کشف الغمہ ج۱ ص ۲۴۰۔
[8] تذکرةالخواص ص۶۸۔
[9] تذکرة الخواص ص۶۸۔
[10] تذکرة الخواص ص ۶۸۔
[13] ارشاد ج۱ ص۲۵۲۔
[14] تذکرة الخواص ص۷۳۔
[15] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۳۴۔
[16] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۶۱۔
[17] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۴۷۔
[18] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۴۹۔
[19] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۵۰۔
[20] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص۲۵۰۔
[21] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۶۳۔
[22] تذکرة الخواص ص ۷۹۔
[23] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۴۔۲۴۵۔
[24] کشف الغمہ ج۱ ص۲۴۴۔
[25] المناقب حوارزمی ص۱۹۰۔
[26] مناقب خوارز می ص۱۹۰۔
[27] مناقب خوارزمی ص۱۹۲۔،صحیح بخاری ج۱ ص ۳ باب تعاون فی بناء المسجد ،اور ابن سعد کی طبقات الکبری ج۳ ص۲۵۱۔۲۵۲۔
[28] مناقب خوارزمی ص۱۹۳۔۱۹۴۔
[29] شرح نھج البلاغہ ج۳ ص ۷۵۔۷۶۔
[30] واقعہ صفین ص۳۴۔
[31] واقعہ اصفین ،نصر بن مزاحم ص۴۴ ۔
[32] واقعہ صفین نصربن مزاحم ۔ج۱ص۴۴۔۴۷۔
[33] واقعہ صفین ص۵۰۔
[34] تذکرة الخواص ص۸۲۔
[35] تذکرة الخواص ص ۸۲ ۔۸۳۔
[36] تذکرة الخواص ص ۸۳،۸۴۔
[37] شرح نھج البلاغہ ج۳ ص۸۴۔
[38] تذکرة الخواص ج۱ ص۸۶۔
[39] تذکرة الخواص ص۸۶۔
[40] مناقب خوارزمی ص۲۰۶۔
[41] مناقب خوارزمی ص۲۰۸۔
[42] مناقب خوارزمی ص۲۱۰،۲۱۵۔
[43] مناقب خوارزمی، ص۲۱۵ تا ۲۱۹۔
[44] مناقب خوارزمی، ص۲۲۲
[45] شرح نھج البلاغہ ج۴ ،ص ۱۳
[46] واقعہ صفین نصر بن مزاحم ص ۱۹۳۔۱۹۹
[47] واقعہ صفین ص۲۰۲۔۲۰۳
[48] واقعہ صفین ص۲۰۲۔۲۰۳۔
[49] واقعہ صفین ص۲۰۴۔
[50] شرح نھج البلاغہ جلد۵ص۱۹۶۔
[51] شرح نھج البلاغہ جلد ۴ ص۳۰۔۳۱۔
[52] واقعہ صفین ص۲۱۸۔
[53] واقعہ صفین ص۲۱۷۔
[54] واقعہ صفین ص ۲۲۰۔
[55] اعیان شیعہ جلد ۱ ص ۴۸۶۔
[56] اعیان الشیعہ جلد ۱ ص ۴۸۷ ۔
[57] اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۸۷
[58] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص۱۷۶۔
[59] شرح نھج البلاغہ ج۵ص۲۱۷۔
[60] سورہ بقرہ آیت۲۵۳۔
[61] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص۲۵۸ ۔
[62] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۳۱۳ تا ۳۱۷۔
[63] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۱۶ تا ۲۱۔
[64] شرح نھج البلاغہ ج ۶ ص ۱۷تا ۱۸
[65] نھج البلاغہ ج۶ص۲۴۔
[66] مناقب خوارزمی ص۲۳۴۔
[67] مناقب خوارزمی ص۲۳۶۔
[68] منا قب خوارزمی ص۲۴۹۔
[69] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۵۵۔
[70] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص ۵۸۔۵۹
[71] شرح نھج البلاغہ ج۶ص ۱۰۱تا۱۰۲ ۔
[72] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۸۔۱۸۹۔
[73] صحیح مسلم ج۳ کتاب الزکوة ص۱۱۳، مناقب خوارزمی ص۲۵۹۔
[74] مناقب خوارزمی ص۲۵۹۔
[75] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۷۷ ۔
[76] ارشاد ج۱ ص ۳۱۷۔
[77] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص ۲۶۷۔
[78] تاریخ طبری ج۵ ص ۷۲۔
[79] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۷۳۔
[80] سورہ زمر: ۶۵۔
[81] سورہ روم :۶۰
[82] تاریخ طبری ج۵ ص۷۲۔
[83] سورہ نساء آیت ۳۵۔
[84] شرح نھج البلاغہ ج ۷ ص ۲۷۵۔
[85] کشف الغمہ فی معرفة الا ئمہ ج ۱ ص ۲۶۵۔۲۶۶۔
[86] سیرت الائمہ اثنی عشر ج۱ ص ۴۴۴۔
[87] شرح نھج البلاغہ نے ج۲ ص۲۸۰۔۲۸۲۔ نقل از کتاب کامل مبرد ج۳ ص ۲۱۲۔۲۱۳۔
[88] شرح نھج البلاغہ ج۲ ص۲۶۵۔
[89] اعیان شیعہ ج۱ ص ۵۲۴۔
[90] شرح نھج البلاغہ ج۲ص۲۸۲ ۔
[91] شرنھج البلاغہ ج ۲ص۲۷۳پر ابن حدید نے کامل مبرد جلد ۳ص۱۸۷سے نقل کیا ھے ۔
[94] کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ ج ۱ ص۲۶۷
[95] ارشاد ج ۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۱۹
[96] سورہ لقمان آیت۳۴۔
[97] اس روایت کو ابن ابی الحدید نے شرح نھج البلاغہ ج ۲ ص ۲۶۹ تا ۲۷۰پر ابن دےزل کی کتاب صفےن سے نقل کیا ھے ۔